Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نادرا میں جنسی مُجرموں کی رجسٹری، سروس کیسے کام کرے گی؟

اس منصوبے کے تحت ملک بھر سے جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں ملوث افراد کی فہرست پر مبنی ایک سہولت کا اجراء کیا ہے۔
اس پروجیکٹ کو نیشنل سیکس آفینڈر رجسٹری یا جنسی مجرموں کی قومی رجسٹری (این ایس او آر) کا نام دیا گیا ہے۔
نادرا کے بیان کے مطابق ’جنسی جرائم میں سزایافتہ افراد کے اس ڈیٹابیس کی بدولت شہری اور ادارے ملک بھر میں کسی بھی جگہ سے ایسے افراد کی شناخت اور ٹریکنگ کر سکتے ہیں جو بچوں اور خواتین کی بے حرمتی سمیت جنسی جرائم میں سزا یافتہ ہیں۔‘
اس منصوبے کے تحت ملک بھر سے ایسے مجرموں کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہے۔ نادرا کا کہنا ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مستقل رابطوں کے نتیجے میں یہ فہرست اپ ڈیٹ بھی ہوتی رہے گی۔
’اس سہولت کا مقصد جنسی تشدد اور بدسلوکی کی روک تھام کے سلسلے میں شہریوں اور اداروں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جہاں سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق فوری معلومات حاصل کر سکیں۔‘
’شہریوں، ملازم رکھنے والے اداروں اور محکموں کو تصدیقی ایس ایم ایس کے ذریعے ایسے مجرموں کے بارے میں خبردار کر دیا جائے گا۔‘
چیئرمین نادرا طارق ملک نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہے کہا کہ ’یہ پروجیکٹ میرے دل کے بہت قریب تھا۔ آئے دن بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی جرائم کے واقعات سامنے آتے ہیں تو شدید اذیت ہوتی ہے۔ اس حساس مسئلے پر کوئی تو قدم اٹھانا ہی تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب آپ کسی کو ملازم، کُک یا معلم وغیرہ رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس اس شخص کی ویریفیکشن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو یہ سروس انتہائی آسانی سے اس معاملے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔‘

معلومات کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں؟

اس کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص کو شناختی کارڈ نمبر آپ کے پاس ہو جس کے بارے میں آپ جاننا چاہتے ہیں۔ اس شخص کا 13 ہندسوں پر مشتمل شناختی کارڈ نمبر شارٹ کوڈ 7000 پر ایس ایم ایس کر کے یہ تصدیق کی جا سکتی ہے کہ آیا وہ جنسی مجرم ہے یا نہیں۔ مجرم ہونے کی صورت میں اردو میں اس طرح کا جواب موصول ہو گا ’نام اور ولدیت۔ خبردار! یہ شخص ایک مجرم ہے۔ اسے بچوں کے قریب جانے کی اجازت نہ دی جائے۔‘

کسی بھی شخص کے بارے معلومات ایک ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں (فوٹو: نادرا)

اس حوالے سے نادرا کے ترجمان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اگر کسی شخص کا جنسی جرائم میں ملوث ہونے کا ریکارڈ ہوا تو ایس ایم ایس کے جواب میں ’خبردار‘ والا جواب موصول ہو گا، اگر ایسا نہ ہوا تو صرف مطلوبہ شخص کا نام اور ولدیت ظاہر ہو گی۔‘
پاکستان میں مخالفین کے خلاف انتقام کی بنیاد پر جعلی مقدمات قائم کرنے کی شکایات رہتی ہیں اور کئی مرتبہ مقدمات میں قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ایسے افراد کو بھی سزا مل جاتی ہے، جو مجرم نہیں ہوتے اور اس کا پتا کافی دیر سے چلتا ہے۔

وزارتِ قانون رُولز پر کام کر رہی ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نادرا کی جنسی جرائم کی رجسٹری میں اس پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں نادرا کے ترجمان نے کہا کہ ’دیکھیں ہم نےابتدائی پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے۔ اب وزارتِ قانون و انصاف اس کے قوانین پر کام کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس میں کئی طرح کے چیکس لگائے جائیں گے تو شہریوں کی پرائیویسی کے لیے ضروری ہیں۔‘
شہریوں کی پرائیویسی کا سوال
چیئرمین نادرا طارق ملک نے جنسی مجرموں کی رجسٹری کے پروجیکٹ سے جڑے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دیکھیے اس میں پرائیویسی کا کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ایک شخص جو ملازمت کے لیے آپ کے پاس آ رہا ہے۔ وہ اپنا شناختی کارڈ دے کر گویا اپنا ڈیٹا فراہم کرنے پر رضامندی کا اظہار کر رہا ہے۔ آپ وہی شناختی کارڈ نمبر 7000 پر بھیج کر اطمینان کر لیتے ہیں۔‘
’اس کے بعد اس ایمپلائر(نوکری دینے والے) کی مرضی ہے کہ وہ اس شخص کو رکھتا ہے یا نہیں۔‘

کیا یہ افراد ہمیشہ مجرم ہی شمار ہوں گے؟

نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے بتایا کہ ’اس پروجیکٹ سے متعلق رُولز کی تیاری کا عمل بھی جاری ہے اور اس پر تقریباً 70 فیصد کام ہو چکا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس میں ایک گریجویشن کی شِق بھی رکھی جائے۔ ایسے افراد کے لیے کچھ ایسے کورسز ہوں جن سے ان افراد کی بحالی ممکن ہو سکے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا ایسا شخص سماج کی کسی طبقے کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہے۔‘
’قوانین اپنی تیاری میں کچھ وقت لیتے ہیں لیکن ہمارے پاس ٹیکنالوجی کا ٹُول تو ہے، اس کا تو فوری استعمال کرنا چاہیے۔‘

نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے بتایا کہ ’اس پروجیکٹ سے متعلق رُولز کی تیاری کا عمل بھی جاری ہے (فوٹو: سکرین گریب)

طارق ملک نے مزید کہا کہ ’جب خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کو سماجی طور پر ہرگز قبول نہ کیا جائے۔ کھلے عام قانونی کارروائیاں کی جائیں اور وسیع پیمانے پر انہیں رپورٹ کیا جائے۔ یعنی اس طرح کا ایک واقعہ بھی بہت زیادہ لگنے لگے تو پھر ہی ہم سب مل کر بچوں اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے قابل ہوتے ہیں۔‘

شیئر: