Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان تحریک انصاف کس سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے؟ 

عمران خان نے پارٹی رہنماوں کے خلاف کریک ڈاون کے بعد بار بار اپنے خطابات میں کہا کہ اب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں سیاسی بحران کے خاتمے اور انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات کو ہی واحد حل قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ مذاکرات کون کس سے کرے گا اس کا فیصلہ کافی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ 
حکمراں اتحاد ہو یا اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان کے بیانات آئے روز تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس سے مذاکرات کے لیے درکار ماحول ہر دوسرے روز متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ 
جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ 
اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’ہم کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کر کے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مسلط شدہ لوگ ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور بیساکھیوں کے پیچھے چھپ رہیں ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر صرف حقیقی فیصلہ سازوں سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔‘
اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کا مقدمہ آنے سے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ حکومت میں شامل جماعتوں سے مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ وہ بے اختیار ہیں۔ خود عمران خان اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’انہوں نے مذاکرات کے لیے صدر عارف علوی اور ہاشم ڈوگر کے ذریعے آرمی چیف کو پیغامات بھجوائے لیکن ان کی طرف سے جواب نہیں آیا۔‘
سپریم کورٹ کی جانب سے ایک روڈ میپ ملنے کے بعد حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تین ادوار ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اور پُرتشدد واقعات کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ 
عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاون، ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کے بعد بار بار سوشل میڈیا پر اپنے خطابات میں کہا کہ اب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ 
چیئرمین پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جس کا نوٹیفکیشن سنیچر کو پارٹی کے آفیشل لیٹر ہیڈ پر پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان کے دستخط سے جاری کیا گیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ’مذاکراتی کمیٹی‘ کے ارکان میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصر، حلیم عادل شیخ، عون عباس بپی، مراد سعید اور حماد اظہر شامل ہیں۔
جاری کیے گئے بیان اور نوٹیفکیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی یہ کمیٹی کس سے مذاکرات کرے گی۔
تاہم اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد حکمراں اتحاد کی جانب سے بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان سامنے آ گیا۔ اس سلسلے میں پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں صاف صاف کہہ دیا کہ تحریک انصاف سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تحریک انصاف سے مذاکرات سے انکار کر دیا۔ 
اس حوالے سے شہباز شریف نے بھی نواز شریف کے موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات سیاسی عمل کا کلیدی جزو ہیں جو جمہوریت کے ارتقا میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ ایسے سیاسی اور آئینی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جب سیاسی قائدین مزاکرت کی میز پر بیٹھے اور قومی امور پر اتفاقِ رائے قائم ہوا۔‘
’تاہم یہاں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انتشار اور جلاؤ گھیراؤ پھیلانے والے ایسے لوگ جو خود کو نام نہاد سیاست دان کہلواتے ہیں، مذاکرات کے اہل نہیں ہو سکتے۔ ان کا ان کے عسکریت پسندانہ اقدامات کے لیے احتساب ہونا چاہیے۔ اور یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔‘
بدھ کو عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے لیے آئے تو اردو نیوز نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ نے مذاکراتی کمیٹی حکومت سے مذاکرات کے لیے بنائی ہے یا اسٹیبلشمنٹ سے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم دونوں سے بلکہ سب سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘
جب کہا گیا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ آپ کی جماعت شدت پسند ہے اور آپ سے مذاکرات نہیں ہوں گے تو سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں۔‘
اس کے بعد بھی عمران خان متعدد بار سوشل میڈیا پر خطاب کے لیے آئے اور مذاکرات پر زور دیا۔ 
جس کے جواب میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ ’اگر سنجیدہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف وزیراعظم شہباز شریف سے ہی ہو سکتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ عمران خان کی تشکیل دی گئی کمیٹی کے اہم رکن پرویز خٹک پارٹی عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں اکثریت گرفتار ہے۔ جس کے باعث فی الحال مذاکرات کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مذاکرات صرف اس وقت ہی ہو سکتے ہیں اور ان کا کوئی مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے جب پی ٹی آئی سیاسی قوتوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو بہتر حل کی طرف لے جانے کے لیے یکسو ہوگی۔ 

شیئر: