پاکستان میں سیاسی بحران کے خاتمے اور انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات کو ہی واحد حل قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ مذاکرات کون کس سے کرے گا اس کا فیصلہ کافی پیچیدہ ہو چکا ہے۔
حکمراں اتحاد ہو یا اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان کے بیانات آئے روز تبدیل ہوتے رہتے ہیں جس سے مذاکرات کے لیے درکار ماحول ہر دوسرے روز متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کنگز پارٹی کیسے بنتی ہے؟ کون بناتا ہے؟ کیا اب بھی بن رہی ہے؟Node ID: 768971
-
عمران خان کے ’وسیم اکرم پلس‘، جو میچ سے ہی باہر ہو گئےNode ID: 769516
جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف کا پرانا موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’ہم کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کر کے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مسلط شدہ لوگ ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور بیساکھیوں کے پیچھے چھپ رہیں ہیں۔ آئین اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر صرف حقیقی فیصلہ سازوں سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔‘
ہم کٹھ پتلیوں سے مذاکرات کر کے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یہ مسلط شدہ لوگ ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور بیساکھیوں کے پیچھے چھپ رہیں ہیں۔
آئین اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر صرف حقیقی فیصلہ سازوں سے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔— Hammad Azhar (@Hammad_Azhar) June 2, 2023
اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کا مقدمہ آنے سے پہلے تک پاکستان تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ حکومت میں شامل جماعتوں سے مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ وہ بے اختیار ہیں۔ خود عمران خان اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’انہوں نے مذاکرات کے لیے صدر عارف علوی اور ہاشم ڈوگر کے ذریعے آرمی چیف کو پیغامات بھجوائے لیکن ان کی طرف سے جواب نہیں آیا۔‘
سپریم کورٹ کی جانب سے ایک روڈ میپ ملنے کے بعد حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تین ادوار ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اور پُرتشدد واقعات کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔
عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاون، ان کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کے بعد بار بار سوشل میڈیا پر اپنے خطابات میں کہا کہ اب وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جس کا نوٹیفکیشن سنیچر کو پارٹی کے آفیشل لیٹر ہیڈ پر پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان کے دستخط سے جاری کیا گیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ’مذاکراتی کمیٹی‘ کے ارکان میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصر، حلیم عادل شیخ، عون عباس بپی، مراد سعید اور حماد اظہر شامل ہیں۔
جاری کیے گئے بیان اور نوٹیفکیشن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی یہ کمیٹی کس سے مذاکرات کرے گی۔
تاہم اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد حکمراں اتحاد کی جانب سے بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان سامنے آ گیا۔ اس سلسلے میں پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں صاف صاف کہہ دیا کہ تحریک انصاف سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی تحریک انصاف سے مذاکرات سے انکار کر دیا۔
بات چیت صرف سیاست دانوں سے کی جاتی ہے۔
شہدا کی یادگاروں کو جلانے والے، ملک کو آگ لگانے والے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے گروہ سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) May 27, 2023
اس حوالے سے شہباز شریف نے بھی نواز شریف کے موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات سیاسی عمل کا کلیدی جزو ہیں جو جمہوریت کے ارتقا میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ ایسے سیاسی اور آئینی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جب سیاسی قائدین مزاکرت کی میز پر بیٹھے اور قومی امور پر اتفاقِ رائے قائم ہوا۔‘
’تاہم یہاں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انتشار اور جلاؤ گھیراؤ پھیلانے والے ایسے لوگ جو خود کو نام نہاد سیاست دان کہلواتے ہیں، مذاکرات کے اہل نہیں ہو سکتے۔ ان کا ان کے عسکریت پسندانہ اقدامات کے لیے احتساب ہونا چاہیے۔ اور یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔‘
مزاکرات سیاسی عمل کا کلیدی جزو ہیں جو جمہوریت کے ارتقاء میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں. تاریخ ایسے سیاسی اور آئینی کامیابیوں سے بھری پڑی ہے جب سیاسی قائدین مزاکرت کی میز پر بیٹھے اور قومی امور پر اتفاقِ رائے قائم ہوا.
تاہم یہاں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انتشار اور جلاؤ گھیراؤ…
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) May 30, 2023