Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ جنہیں کاہل و کم شکل سمجھتا تھا، اپنے شوہروں کیساتھ خوش تھیں

اس کو ہم پلہ نہ مل سکی، شاید اسکا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ اس تک پہنچتے پہنچتے طویل سفر مکمل نہ کرسکا
- - - - - - - - - - -
زینت شکیل۔جدہ

- -  - - - - - - -

وہ گیٹ پر کھڑی دھوبی کو زبانی حساب کرکے کہہ رہی تھی کہ تمہارا حساب لکھا ہوا غلط ہے جو میں نے کہا ہے وہی حساب درست ہے۔ وہ جو پتہ تلاش کرتا یہاں تک پہنچا تھا، نیم پلیٹ پر نظر دوڑاتے ہوئے گھر کی گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ وہ ہنوز اپنی بات پر اصرار کررہی تھی ، اسے دیکھ کر کچھ حیرت سے پوچھنے لگی کہ آپ کو کس سے ملناہے؟ اس نے جب اپنی والدہ کے بچپن کی سہیلی اور پڑوسن کا پورا نام بتایا تو عجلت سے اندرونی جانب بڑھی اور راستہ دیتے ہوئے کہا کہ آیئے ،ہماری بڑی تائی امی دالان میں اپنے تخت پر نماز میں مشغول ہیں، تھوڑی دیر بعد آپ کی ملاقات ان سے ہوجائے گی۔ اس نے اس بڑے صحن کو عبور کیا اور اس دوران پوری کرکٹ ٹیم کو نظر غائر دیکھا۔کوئی بولنگ کرانے کا ارادہ کرتے ہوئے گیند کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کررہی تھی ، کوئی دھوپ کا چشمہ لگائے اطمینان سے فیلڈنگ کرنے گراؤنڈ کے آخری سرے پر موجود تھی ، کسی نے بیٹنگ کیلئے تیاری پوری کررکھی تھی۔ کرکٹ کٹ کا پورا استعمال کیا گیا تھا جبکہ ہیلمٹ بھی لگایا ہوا تھا۔ چند ایک کالج کے سفید یونیفارم پر وی لگائے چیونگم چباتے اسے دیکھ رہی تھیں۔ کھیل چند لمحوں کیلئے رکا ،پھر طویل مستطیل کے دونوں جانب بنی وکٹ اور ایک جانب سیاہ ٹراؤزر میں سفید شرٹ پہنے ،سیاہ کیپ لگائے، سیٹی ہاتھ میں لئے امپائر کارعب داب والا چہرہ بنائے، اس نے سیٹی بجاکر کھیل دوبارہ شروع کرنے کا اشارہ کردیا۔ وہ اپنی والدہ کے کہنے پر اپنے چھوٹے گاؤں سے اپنے جاننے والوں میں بڑی ڈگری حاصل کرنے پر اس گھر میں امیدوار بن کر آیا تھا۔
والدہ نے گاؤں کی سوغات کے ساتھ کے ساتھ ایک چھوٹا ساخط بھی لفافے میں ڈال کر ساتھ دیا تھا جس میں اپنی پرانی پڑوسن اور دیرینہ سہیلی سے درخواست کی گئی تھی کہ چونکہ وہ بیمار رہتی ہیں، دور دراز کا سفر نہیں کرسکتیں تو جس طرح ان کے بیٹے کی خواہش ہے کہ کسی پڑھی لکھی، اچھے خاندان کی لڑکی سے اسکا نکاح کردیا جائے۔ گاؤں میں تو ہمارے کوئی ایسی مجھے ملی نہیں، تم اس کام میںمیری مدد کردو تو بہت اچھا ہوگا۔ وہ آفس کی تیاری کررہاتھا ، آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ میں کتنا ہینڈسم ہو ں ،بھلا ٹریفک کے دھوئیں میں رہنے والے میرا کیا مقابلہ کرسکیں گے۔ جن کے بال وقت سے پہلے سفیدی مائل اور چہرے دھوئیں زدہ لگنے لگتے ہیں۔ وہ آفس سے واپسی پر ایک شاپنگ مال پر رکا تاکہ کوئی چیز اپنی امی کی سہیلی کیلئے لے سکے، وہاں اسے اس کے باس شاپنگ کرتے نظر آئے ۔
اسے دیکھا تو ہشاش بشاش لہجے میں بتانے لگے کہ آج میری چہیتی صاحبزادی کی برتھ ڈے ہے۔ اسی لئے یہاں آیا ہوں کہ کوئی چیز پسند آجائے تو پیک کروا لوں۔ اچھا ہے کہ تم سے ملاقات یہاں ہوگئی ،کچھ مل کر تلاش کرتے ہیں۔ پھر انہو ںنے اپنے گھر ڈنر کی دعوت دے ڈالی۔ وہ جب ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچا تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بنگلہ تھا کہ چھوٹا سا باغیچہ، کس قدر خوبصورتی سے یہاں سے وہاں تک لان میں رنگ برنگے پھولوں کے پودے اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔ روش پر چلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ چار عدد گاڑیاں ان کی امارت میں اضافہ کررہی تھیں۔ واپسی میں وہ خوش خوش جارہا تھا کہ کتنی اچھی فیملی سے ملاقات ہوگئی، وہ اپنے گھر لے کر گئے، کوئی تو وجہ ہوگی۔ میرے بارے میں، گاؤں کے بارے میں اور خاندان کے بارے میں پوچھتے رہے ،یقینا میںانہیں بے حد پسند آیا ہوں گا ورنہ کوئی مہمان تو وہاں میرے سوا دوسرا تھا ہی نہیں۔ یقینا اکلوتی بیٹی کیلئے وہ میرا رشتہ چاہتے ہونگے۔
دوسرے دن آفس جاتے ہوئے بس اسٹاپ پر اپنی پڑوسن نظر آئی جو اپنی دادی کواسپتال لے جانے کیلئے کسی رکشہ، ٹیکسی کاانتظار کررہی تھی۔ اس نے جاکر ان کی خیریت دریافت کی اور اسپتال جانے کیلئے ٹیکسی لے آیا۔ انہو ںنے شکریہ کے کلمات ادا کرتے ہوئے اپنے گھر چائے کی دعوت دے ڈالی۔ آج وہ بہت دنوں بعد بالکل ریلکس حالت میں اپنے مستقبل کی پلاننگ کررہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ خواہ مخواہ اماں جان نے اپنی سہیلی کو خط لکھ کر مجھے ان کے گھر بھجوا یا۔ کوئی لڑکی بھی خوبصورت و حسین نہیں تھی اور جو تھی وہ اتنی جھگڑالو تھی کہ اپنے زبانی حساب کو درست اور دوسرے کے لکھے کو غلط کہہ رہی تھی۔ اگر اس کے بعد کوئی قد کاٹھ میں اچھی تھی تو اسے دل و جان سے چیونگم چبانے اور مہمان کو نو لفٹ کرانے کا شوق تھا۔ تیسری صاحبہ یونیورسٹی میں اچھے نمبروں سے پاس ہوئی تھیں ،اب تو پریویس کو پڑھانے ہی گئی تھیں لیکن کیا کیا جائے کہ زیادہ پڑھاکو بننے کے باعث انہیں چشمہ لگ چکا تھا اور وہ چشمہ لگی لڑکی سے چڑتا تھا۔ چوتھی صاحبہ ناک نقشے کی بہترین تھیں لیکن ان کے ہاتھ کی چائے ایسی بے کارکہ آدمی چائے کی جگہ سادہ پانی پی لے، وہ زیادہ بہتر ہوگا۔
پانچویں او ر چھٹی صاحبہ دونوں کالج کے کھیل کود میں حصہ لینے کی وجہ سے لڑاکا جیسی ہوگئی تھیں ۔میراتھن ریس ہو یا سائیکلنگ، ہر جگہ جھنڈے گاڑ رکھے تھے لیکن رنگ دھوپ سے جھلس سا گیا تھا۔ ساتویں لڑکی اتنی کاہل تھی کہ ایک دن وہ شام کو جب وہاں پہنچاتو تائی جان نے چائے بنانے کو کہا ، وہ جواباًکہنے لگی کہ آج شام کی چائے بنانے کی باری میری نہیں۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ ایک پیالی چائے بنانابھی اس کیلئے سوہان روح ہے۔8ویں صاحبہ اپنے فیشن میں رہتی تھیں۔ خود ہی ڈیزائننگ کرتیںاور ہر دوسرے تیسرے روز نیا جوڑا تیارکر لیتیں۔ باقی پاسنگ مارکس تو مل ہی جانے تھے ،پاس تو ہو ہی جانا تھا۔ نویں لڑکی اتنی محنتی تھی کہ رات دیر گئے تک پڑھتی رہتی تھی لیکن اسکاسانولا رنگ اسے نہیں بھاتا تھا۔ دسویں صاحبہ نجانے کن ہوم اکنامکس کی چیزوں میں رہتی تھیں کہ اردگرد کی خبر رکھے بغیر کوئی نہ کوئی ہینڈی کرافٹ بنانے میں مشغول رہتی تھیں۔ گیارہویں کو اپنے حسن کا اتنا غرور تھا کہ اپنی آمد پر زوردار انداز میںدروازہ بند کرتی اور کمرے میںبند ہوجاتی تھی کہ نہ سامنے نظر آئے گی،نہ چائے بنانے کیلئے کہا جائے گا۔ بارہویں جو امپائر بناکرتی تھی ،اسکے چہرے پر اتنا رعب رہتا تھا کہ بڑے بڑوں کو پسینہ چھوٹ جاتا تھا۔ اس نے کرکٹ میں اگر ایک دفعہ کسی کو آؤٹ دے دیا تو کوئی اسکا فیصلہ تبدیل نہیں کراسکتا تھا۔ اس نے اس گھرانے میں اب جانا کم کردیا وار اپنا موبائل بھی زیادہ تر سوئچ آف رکھنے لگا۔ جب خود کہیں فون کرتا تو آن کرلیتا۔ وہ اپنی والدہ سے کہہ رہا تھا کہ بہت جلد خوشخبری سنائے گا۔
وہ خوش ہوگئیں کہ انکی سہیلی کے گھر انے میں کوئی لڑکی پسند آگئی ہے لیکن وہ تو اونچی اڑان اڑ نا چاہتا تھا ۔ اسی لئے بن سنور کر اپنے باس کے گھر پہنچا کہ وہ تو اس قدر انکساری سے آفس میں ملتے ہیں، ضرور مجھے داماد بنا نا چاہتے ہیں۔ وہ دروازے کی گھنٹی بجاتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوا ۔ اسی اثناء میں دروازہ کھلا اور اسے اندر بلا لیا گیا۔ ڈرائننگ روم میں کئی مہمان موجود تھے ۔ باس نے خوش دلی سے تعارف کروایا کہ تم اچھے موقع پر آئے ہو۔یہ میرے ہونے والے داماد ہیں، آج ہی بیرون ملک سے یہاں پہنچے ہیں، پرسوں شادی ہے۔ تمہارا کارڈ بھی ہے، جاتے ہوئے کارڈ اپنے ساتھ لیتے جانا۔ وہ واپسی میں مایوس نہیں تھا کہ وہ تو شاید ضرورت سے زیادہ پرامید تھا تو جھٹکا بھی زور کا لگا لیکن جو میری پڑوسن ہے وہ اپنی نانی جان کا خیال رکھتی ہے ۔سادہ سی طبیعت کی ہے، سادگی سے رہتی ہے ،ہمیشہ اپنے انجینیئرنگ کالج جاتے ہوئے سادہ سوٹ ہی زیب تن کرتی ہے ۔ میرا یہاں رشتہ ہونا اچھا ہے۔ وہ گھر کے قریب پہنچا تھا کہ سامان کے ساتھ وہ دونوں خواتین نظر آئیں ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ لڑکی جو طالبہ تھی، اب فائنل امتحان دے کر انجینیئرنگ مکمل کرچکی تھی اور اسکا شوہر کسی دوسرے شہر کی یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اس کا بھی سمسٹر مکمل ہوچکا تھا۔
اب معلوم ہوا کہ وہ سادہ چہرے والی ،سادگی سے رہنے والی لڑکی چونکہ طالبہ تھی، تو اسی حساب سے سادگی سے ہی رہتی تھی۔اسی لئے اسے معلوم نہ ہوسکا کہ وہ شادی شدہ ہے کیونکہ نہ کوئی زیور، نہ میک اپ۔ چند ہفتے کے بعد اس نے آخری صورت میں اپنی والدہ کی سہیلی کے گھر کا رخ کیا کہ وہیں کسی نہ کسی کو اپنی پسندیدگی کی سند دے دے لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔ ابھی گلی میں پہنچا ہی تھا کہ پھر اسی سے ٹکراؤ ہوگیا جو اپنی مہنگی گاڑی سے اترتے ہوئے قریب موجود منشی صاحب سے کہہ رہی تھی کہ آپ کا لکھا حساب بالکل غلط ہے، میں نے جو زبانی بتا دیا وہی حساب صحیح ہے ۔آپ دوبارہ چیک کریں اور اسکے پیچھے پیچھے چلنے والے شوہر نامدار اپنی بیگم کے کہے پر مہر ثبت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ منشی جی ہماری بیگم کو ایک دفعہ کا حساب یاد رہ جاتا ہے۔ آپ دوبارہ حساب کرلیں ،ضرور کہیں غلطی ہوگی۔ سیڑھی چڑھتے ہوئے اُس کی نظر اِس پرپڑی تو کہنے لگی، ارے آپ ہماری تائی جان سے ملنے آئے ہیں، اچھا ہوا آج ہمارے پورے خاندان کی دعوت ہے،آپ بھی شامل ہوجائیں گے۔ معلوم ہوا کہ جو لڑکیاں اسے کاہل و کم شکل، فیشن ایبل اور نجانے کیا کچھ لگتی تھیں، سب کی سب اپنے اپنے شوہروں کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں اور جس کے رعب و دبدبے کو اس کی خامی سمجھا گیاتھا ، آج مقامی ٹیم کی کیپٹن بن چکی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور اس کو کوئی اپنی ہم پلہ نہ مل سکی۔ شاید اسکا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ اس تک پہنچتے پہنچتے طویل سفر مکمل نہ کرسکا اور وہ بالوں میں سفیدی لئے ٹریفک کے دھوئیں زدہ چہرہ لئے انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ جاننا چاہئے کہ بروقت درست فیصلہ کرنا، بہترین صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔

شیئر: