Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین شہری کا ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر پیدل سفرِ حج، ’میرا عمر بھر کا خواب تھا‘

شہاب الدین نے اپنا سفر حج کیرالہ سے دو جون 2022 کو شروع کیا تھا جو سات جون 2023 کو مکہ میں اختتام پذیر ہوا۔ (فوٹو: شہاب الدین، انسٹاگرام)
انڈیا کے ایک شہری اپنی زندگی کے خواب کی تکمیل کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے مکہ پہنچا ہے۔
عرب نیوز  کے مطابق انڈین ریاست کیرالہ کے شہری شہاب الدین سعید علوی نے حج کی ادائیگی کے لیے آٹھ ہزار 640 کلومیٹر کا پیدل سفر کیا ہے۔
شہاب الدین ’شہاب چتور‘ کے نام بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک برس اور 17 دن پیدل سفر کے دوران پانچ ملکوں انڈیا، پاکستان، ایران، عراق اور کویت سے گزر کر اپنی منزل تک پہنچے ہیں۔
انہوں نے اپنا سفر حج کیرالہ سے دو جون 2022 کو شروع کیا تھا جو سات جون 2023 کو مکہ میں اختتام پذیر ہوا۔
عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شہاب الدین نے کہا کہ ’یہ رمضان کا ایک دن تھا جب میں صبح سوا پانچ بجے سعودی عرب اور کویت کی سرحد پر پہنچا۔ میں نے اپنے گھٹنے زمین پر ٹکائے اور مملکت کی مٹی کو چُھوا۔‘
شہاب الدین علوی نے پہلے مدینے کا سفر کیا۔

’مکہ پہنچتے ہی سفر کی تمام مشکلات بھول گیا‘

انہوں نے کہا کہ ’میں مسجد نبوی پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرا سفر مکمل ہو گیا ہے۔ میں نے روضۂ نبوی کی زیارت کی اور مجھے یقین تھا کہ اب حج ادا کرنے میں مکہ پہنچ جاؤں گا۔‘
شہاب جب مکہ پہنچے تو وہ اپنے ایک برس کے پیدل سفر کے تمام چیلنجز اور سختیاں ایک دم بھول گئے۔ انہوں نے ان تمام افراد کے لیے ’گھنٹوں طویل‘ دعائیں کیں، جن نے سفر میں ان کی مدد کی اور ان کے لیے بھی جنہوں نے انہیں کعبہ کے سامنے دعا کرنے کو کہا تھا۔
‘میں نے تمام امتِ مسلمہ کے لیے دعائیں کیں۔‘
اپنے سفر کے بارے میں شہاب الدین علوی نے بتایا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے لوگوں نے میری مدد کی اور وہ مجھ سے ملتے رہے۔ ایران اور عراق میں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن جونہی میں نے کویت کی سرحد عبور کی تو جن افراد کو میرے سفر کے بارے میں علم تھا، انہوں نے مجھ سے رابطے کرنا شروع کر دیے اور میری مدد کی۔‘
’میں جس بھی ملک میں ٹھہرا، وہاں کے حکام، پولیس، فوج نے میری مدد کی اور جو مجھے جانتے تھے، انہوں نے اپنے گھروں میں ٹھہرنے کی دعوت دی۔‘

شہاب الدین نے بتایا کہ ’مکہ پہنچ کر میں نے تمام امتِ مسلمہ کے لیے دعائیں کیں۔‘ (فوٹو: انسٹاگرام، شہاب الدین چتور)

شہاب الدین علوی تین بچیوں کے والد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سفر کی تیاری کے لیے انہیں تین برس لگے۔ راستے میں پڑنے والے تمام ممالک سے بغیر کسی رکاوٹ کے گزرنے کے لیے انہوں نے نیو دہلی میں موجود سفارتی مشنز سے رابطہ کیا اور ویزے حاصل کیے۔
’میرے پاس تمام ممالک کے قانونی ویزے تھے۔ ایران نے مجھے انٹری ویزا دیا، پاکستان نے ٹرانزٹ ویزا جبکہ کویت کی پولیس نے مجھے کلیئرنس دی۔ اور سعودی عرب کے لیے مجھے ملٹی پل انٹری ویزہ مل گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا ’مملکت میں حکام کی جانب سے مجھے پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔ یہاں وہ تمام اول درجے کی سہولیات مجھے فراہم کی گئیں جو حج کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں۔ یہ سعودی حکام کی حج زائرین کے ساتھ خصوصی محبت کی علامت ہے۔ میں سعودی عرب کا بہت شکرگزار ہوں۔‘

جوتوں کے سات جوڑے استعمال کیے

شہاب الدین نے اس سفر کے دوران ایک ہائیکنگ کی چھڑی، بیک پیک اور کپڑوں کے چار جوڑے اپنے ساتھ رکھے۔ اس کے علاوہ ان کے سفری سامان میں جنگلی جانوروں سے بچانے والا مِرچوں والا سپرے، جوتوں کے دو اضافی جوڑے، برتن، ضروری دستاویزات اور حج کے لیے کچھ رقم شامل تھی۔
’میں برانڈڈ جوتے استعمال کرتا ہوں۔ پاکستان کی سرحد عبور کرنے سے قبل مٰں نے چھ جوڑے استعمال کیے کیونکہ اس وقت انڈیا میں مون سون کا موسم چل رہا تھا۔ اس کے بعد مدینہ پہنچنے تک صرف ایک ہی جوڑا استعمال کیا۔‘

اس سفر کے دوران شہاب الدین علوی نے اپنا وزن 18 کلو گرام کم کیا (فوٹو:انسٹاگرام، شہاب الدین)

’میں نے اس سفر کے لیے اپنی بچت سے رقم استعمال کی لیکن اس کا موقع بھی مشکل ہی سے میسر آیا کیونکہ جن جن ممالک سے میں گزرا، وہاں کے مسلمان بھائیوں نے میری بہت اچھے سے خاطر مدارات کی۔
اس سفر کے دوران شہاب الدین علوی نے اپنا وزن 18 کلو گرام کم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’سفر کے دوران میں نے صرف روایتی کھانوں پر انحصار کیا کیونکہ وہ جسم کے لیے بہتر ہوتے ہیں۔‘

’جنگلی جانوروں کے پنجوں کے نشانات دیکھے‘

شہاب علوی نے بتایا کہ اس سفر میں کہیں کہیں خوف کا عنصر بھی انہیں لاحق رہا۔
’ایران میں جنگلی جانوروں کے پنجوں کے نشانات دیکھے جنہیں میں نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ جب میں نے وہاں کچھ افراد کو یہ تصاویر دکھائیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ چیتے کی قدموں کے نشان ہیں۔ اس کے بعد مجھے کچھ ڈر سا لگنے لگا۔‘
’یہ ایک مختلف نوعیت کا تجربہ تھا جب مجھے ایران میں برف میں مسلسل اکیلا چلنا پڑا۔ موسمی حالات نہایت سخت تھے اور یہ بہت مشکل تھا۔‘
’اس دوران ایک مرتبہ مجھے بکریوں کے فارم میں بھی قیام کرنا پڑا۔ عراق اور ایران میں جن افراد نے مجھے کھانے اور رہنے کے لیے اپنے گھروں میں بلایا، وہ جانتے تھے کہ میں ایک مسلمان مسافر ہوں۔‘

شہاب الدین کے بقول ’راستے میں پڑنے والے تمام ممالک نے مسلمانوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا (فوٹو: انسٹاگرام، شہاب الدین چتور)

شہاب الدین علوی کہتے ہیں کہ ’مکہ اور مدینہ پہنچنا میرا خواب تھا اور پیدل پہنچنا میرا مقصد۔ میں نے اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھا اور اس کے لیے سخت محنت کی۔‘
’میرے اس سفر کی وجہ سے بہت سے افراد حج کی ادائیگی کی طرف راغب ہوں گے۔ حج ایک مقدس فریضہ ہے اور میں لوگوں کو اس فریضے کی ادائیگی کی ترغیب دینا چاہتا ہوں۔‘
شہاب الدین سوشل میڈیا پر بھی اپنے سفر کی جھلکیاں پوسٹ کرتے رہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ان کے 49 لاکھ جبکہ یوٹیوب کا 15 لاکھ فالورز ہیں۔ ان کا فیس بک پر بھی ویریفائیڈ اکاؤنٹ موجود ہے۔

شیئر: