آبنائے ہرمز دنیا کے اہم ترین اور خطرناک ترین سمندری راستوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ توانائی کی ترسیل کے لیے نہایت حساس مقام پر واقع ہے اور یہاں جیوپولیٹیکل کشیدگی اور عالمی فوجی موجودگی عام ہے۔
یہ آبنائے عمان کے راس مسندم اور ایران کے بندرعباس کے درمیان واقع ہے اور قدرتی طور پر جزیرہ نما عرب اور ایران کے درمیان حد بندی کرتا ہے۔
یہ عراق، کویت، بحرین اور قطر کے لیے واحد سمندری راستہ ہے کیونکہ یہ خلیج عربی کو بحر عمان، پھر بحر عرب اور بحرِ ہند سے جوڑتا ہے۔
روزانہ تقریباً 20 ملین بیرل تیل اور بڑی مقدار میں قدرتی گیس اس آبنائے سے گزرتی ہے جو کہ عالمی تیل کی ترسیل کا تقریباً 20 فیصد ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے اس کی چوڑائی تقریباً 34 کلومیٹر ہے اور گہرائی 60 سے 100 میٹر کے درمیان ہے جبکہ محفوظ سمندری گزرگاہیں صرف 10 سے 12 کلومیٹر چوڑی ہیں۔
’روزانہ تقریباً 20 ملین بیرل تیل اور بڑی مقدار میں قدرتی گیس اس آبنائے سے گزرتی ہے‘ ( فوٹو: سبق)
اس کے ارد گرد جیوپولیٹیکل اہمیت کی حامل کئی چھوٹے جزائر پھیلے ہوئے ہیں۔
آبنائے ہرمز سعودی عرب، عراق، کویت، امارات اور قطر جیسے بڑے خلیجی ممالک کے لیے توانائی کا اہم ترین شریان ہے اور اس کے بند ہونے کی کسی بھی دھمکی سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی بحری افواج کی حرکت اور بڑی طاقتوں کے مابین سفارتی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی بحری قوانین کے تحت تمام تجارتی اور عسکری جہازوں کو اس آبنائے سے گزرنے کا حق حاصل ہے۔
اس آبنائے میں نمکیات کا تناسب عالمی اوسط سے زیادہ ہے کیونکہ اس کا بحرِ ہند سے رابطہ محدود ہے، بارش کم ہوتی ہے، مستقل دریا نہ ہونے کے برابر ہیں، سوائے شط العرب کے جو کہ کم بہاؤ رکھتا ہے اور تبخیر کی شرح بہت زیادہ ہے۔
جو آبنائے ہرمز پر کنٹرول رکھتا ہے، وہ عالمی توانائی کی کنجیوں میں سے ایک پر قابض ہوتا ہے۔
’بین الاقوامی بحری قوانین کے تحت تمام تجارتی اور عسکری جہازوں کو یہاں سے گزرنے کا حق ہے‘ ( فوٹو: سبق)
امریکی فضائیہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے سنگین اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
ایرانی پارلیمنٹ نے ایک مسودہ قانون منظور کیا ہے جس میں آبنائے ہرمز کو کشتیاں گزرنے کے لیے بند کرنے کی اجازت دی گئی ہے جس سے عالمی تجارت کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
یہ فیصلہ اب ایرانی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کی منظوری کا منتظر ہے۔
اس اقدام نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے کیونکہ اس آبنائے سے تقریباً 40 فیصد عالمی تیل برآمد ہوتا ہے۔
ایرانی دھمکی نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ اگر آبنائے ہرمز بند ہو جائے تو خلیجی ممالک کے پاس توانائی برآمد کرنے کے کیا متبادل موجود ہیں؟
بقيق، ينبع پائپ لائن
سعودی عرب کے پاس ایک متبادل راستہ موجود ہے جو کہ بقيق سے ينبع تک تیل کی ترسیل کے لیے’پترولاين‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ پائپ لائن مشرقی سعودی عرب کے بقيق آئل فیلڈ کو بحر احمر کے ساحلی شہر ينبع سے جوڑتی ہے اور اس کی لمبائی تقریباً 1200 کلومیٹر ہے۔
اس کی اہمیت اس میں ہے کہ سعودی تیل کو آبنائے ہرمز سے گزرے بغیر برآمد کیا جا سکتا ہے۔
’اگر آبنائے ہرمز بند ہو جائے تو خلیجی ممالک کے پاس توانائی برآمد کرنے کے کیا متبادل موجود ہیں؟‘ ( فوٹو: سبق)
سومید پائپ لائن
یہ پائپ لائن مصر کے علاقے العين السخنہ ’خلیجِ سویز‘ سے لے کر سیدی كرير’بحرِ روم کے ساحل، اسکندریہ‘ تک جاتی ہے اور خلیج سے بحر روم تک تیل لے جانے کا ایک متبادل راستہ فراہم کرتی ہے۔
یہ لائن’سوميد‘ کمپنی کی ملکیت ہے جو ایک مصری مشترکہ سرمایہ کاری کمپنی ہے اور اس کے حصص مصر کی جنرل اتھارٹی برائے پیٹرولیم، سعودی آرامکو، انٹرنیشنل پیٹرولیم انویسٹمنٹ کمپنی، کویت انویسٹمنٹ کمپنی اور قطر انرجی کے پاس ہیں۔
یہ لائن خاص طور پر باب المندب یا اس جیسی اہم آبی گذرگاہوں کے بند ہونے کی صورت میں ایک اسٹراٹیجک اہمیت رکھتی ہے۔
فجیرہ آئل پائپ لائن
یہ لائن امارات کے حبشان فیلڈ سے شروع ہو کر سویحان کے راستے فجیرہ ’بحر عمان کے کنارے‘ تک جاتی ہے۔
اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اماراتی تیل کو آبنائے ہرمز سے گزرے بغیر عالمی منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
یہ تیل کی ترسیل کے لیے ایک اسٹراٹیجک متبادل ہے، خاص طور پر اگر ایران آبنائے ہرمز بند کرنے کی کوشش کرے۔