Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کئی تاریخی مقدمات کا گواہ لاہور ہائیکورٹ کا بوڑھا برگد

لاہور ہائی کورٹ تقریباً 150 سالہ تاریخی اہمیت کی حامل قدیم عمارت ہے۔ یہاں کے در و دیوار تاریخی مقدمات کی شنوائی کر چکے ہیں جبکہ کورٹ کے احاطے میں لگے برگد کے درخت یہاں کی کُل تاریخ کے امین ہیں۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کے فیصلے سے لے کر برطانوی نو آبادیاتی دور کے غداری کے قانون کو کالعدم قرار دینے تک کئی دیگر مشہور مقدموں کی شنوائی اسی عمارت میں ہوئی ہے۔
ان تاریخی مقدمات کے لیے آئے سائلین، وکلاء اور مؤکلین برگد کے انہی درختوں کے سائے میں بیٹھ کر مقدمے کے متعلق افہام و تفہیم کرتے رہے ہیں اور ان کے نیچے بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتے رہے ہیں۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر ایڈووکیٹ عامر جلیل صدیقی کے مطابق برگد کے یہ درخت انگریزوں نے لگائے تھے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’انگریزوں نے یہاں برگد کے چھ درخت لگائے تھے۔ ایک درخت ہائی کورٹ بار کو، دو درخت جوڈیشری کو جبکہ تین درخت ہائی کورٹ کی راہداری کے لیے دیے تھے۔‘
جہاں یہ عمارت تاریخی حوالوں سے مشہور ہے وہیں اس عمارت کی تاریخی اہمیت ان درختوں کی بدولت مزید بڑھ جاتی ہے۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ محمد طارق بشیر اعوان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان درختوں نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ بھی سنا ہے جبکہ کئی دیگر بڑے مقدمات کے سائلین، وکلاء اور مؤکل ان کے سائے میں بیٹھ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا ’اگر ان درختوں کو زبان مل گئی تو یہ ایسی تاریخ تخلیق کر دیں گے جو ہم نے اڑھائی سو سال میں سنی ہو گی اور نہ ہی پڑھی ہو گی۔‘
ان درختوں میں ہر درخت کی الگ کہانی ہے اور ان کی تاریخی اہمیت اس قدر ہے کہ آج بھی وکلا یہاں بیٹھنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں لگے برگد کئی مقدمات کے گواہ ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ایڈووکیٹ ناصر بنوں زئی انہی وکلا میں سے ایک ہیں جو گزشتہ 30 برسوں سے ہائی کورٹ بار میں موجود اس درخت تلے پریکٹس کر رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’میں 30 سالوں سے اس تاریخی برگد کے درخت کے نیچے اپنی پریکٹس کر رہا ہوں۔ یہاں علامہ اقبال، مشہور انڈین مصنف خشونت سنگھ، جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس رانا بھگوان اور جسٹس حمود الرحمان بھی بیٹھ چکے ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج میں اسی درخت کے نیچے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہا ہوں۔‘

’کسی بھی مقام پر کھدائی کی جائے تو انہی درختوں کی جڑیں نکل آتی ہیں‘

ایڈووکیٹ عامر جلیل کے مطابق بار کے لیے جو درخت دیا گیا تھا وہ صرف درخت نہیں ہے بلکہ وہ ایک ثقافتی ورثے کا درجہ رکھتا ہے۔
’وہ ایک سیاسی ہسٹری ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں جتنی بھی تحریکیں چلیں، وہ ان درختوں کے نیچے برپا ہوتی رہی ہیں۔‘
برگد کے یہ درخت نہ صرف سائلین کو چھاؤں فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں بلکہ ہائی کورٹ کے حسن میں اضافے کا باعث بھی ہیں۔
ان کی جڑیں ہائی کورٹ کے کونے کونے تک پھیلی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں کسی بھی مقام پر کھدائی کی جائے تو انہی درختوں کی جڑیں نکل آتی ہیں لیکن گزشتہ کئی برسوں سے آندھی اور بارشوں کی وجہ سے ان درختوں کی شاخیں ٹوٹ چکی ہیں اور تنوں میں کیڑا لگ چکا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ان درختوں کو محفوظ بنانے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے اقدامات اٹھائے تھے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ٹیمیں بھی مقرر کی تھیں۔

برگد کے تاریخی درخت سائلین کو چھاؤں فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

سینیئر کورٹ رپورٹر محمد اشفاق نے اردو نیوز کو بتایا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے ان درختوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے تھے۔
’آندھی کی وجہ سے جن درختوں کی شاخیں ٹوٹ گئی تھیں، انہیں درختوں سے الگ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے نیچے سہارا دینے کے لیے ستون تعمیر کیے گئے تاکہ یہ درخت سے مکمل طور پر الگ نہ ہوں۔‘

’ایسی عمارت تعمیر نہیں کریں گے جس کی وجہ سے یہ درخت کاٹنا پڑے‘

تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے کئی بار غیرمتوقع فیصلے بھی کیے گئے ہیں جن کی بدولت آج تک یہ درخت قائم و دائم ہیں جو عمارت کے حسن میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحول کو خوشگوار رکھنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اردو نیوز کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ گزشتہ برسوں جب لاہور ہائی کورٹ کی نئی عمارت تعمیر ہو رہی تھی تو عمارت کے نقشے میں برگد کا ایک تاریخی درخت آڑے آرہا تھا۔
کورٹ رپورٹر محمد اشفاق نے اردو نیوز کو اس حوالے سے بتایا ’ٹھیکے دار نے کہا کہ اس درخت کو کاٹنا پڑے گا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایسی عمارت تعمیر نہیں کریں گے جس کی وجہ سے اس درخت کو کاٹنا پڑے۔‘
آج یہ نئی عمارت تعمیر ہو گئی ہے اور وہ درخت اس عمارت کے عین وسط میں سالم کھڑا ہے۔  
ایڈووکیٹ ناصر بنوں زئی نے اردو نیوز کے اس نمائندے کو نئی عمارت اور درخت دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس درخت کو تو محفوظ کر لیا گیا لیکن ایوان عدل میں بھی اسی طرح کا ایک درخت ہے جہاں ایک نیا بار روم بن رہا ہے۔
’ہم نے سنا ہے کہ وہاں پرانے برگد کے درخت کو کاٹ کر نیا بار روم بنایا جا رہا ہے۔‘
ماضی میں ان درختوں کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے گئے لیکن اس کے بعد عدم توجہ کے باعث یہ درخت کمزور پڑ گئے۔ ان کے تنے سوکھ گئے ہیں اور ارد گرد تعمیر کی گئی بیٹھنے کی جگہ بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔
برگد نمبر ایک مرکزی مقام پر موجود ہے اور یہاں تمام پریس کانفرنسز ہوتی ہیں۔ مختلف مقدمات کی پیروی کے لیے آئے سیاست دان اور سابق وزراء اسی مقام پر میڈیا ٹاک کرتے ہیں۔
صحافی حضرات بھی اسی مقام پر جمع ہوتے ہیں اور خبروں کے متعلق تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ 
سینیئر کورٹ رپورٹر محمد اشفاق کے مطابق ہائی کورٹ میں صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے، اس لیے وہ یہاں بیٹھتے ہیں، چائے اور ناشتہ تک اسی درخت کے سائے میں کیا جاتا ہے۔

ہائی کورٹ میں نمایاں ہونے کے باوجود ان درختوں کی دیکھ بھال نہیں ہو رہی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا ’کورٹ رپورٹرز کے متعلق یہاں مشہور ہے کہ جب کوئی صحافی کہتا ہے کہ میں ہائی کورٹ میں بیٹھا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہائی کورٹ میں نہیں بیٹھے ہو گے۔ ضرور برگد کے نیچے بیٹھے ہو گے۔‘
ہائی کورٹ میں نمایاں ہونے کے باوجود ان درختوں کی خستہ حالی آج تک نظرانداز ہو رہی ہے۔
سیاست دانوں سمیت متعلقہ اداروں کی جانب سے بھی ان کے لیے حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔

’ یہ درخت اڑھائی سو سالہ تاریخ کے امین ہیں‘

ایڈووکیٹ ناصر بنوں زئی نے اردو نیوز کو بتایا ’ہمیں خدشات لاحق ہیں کہ یہ بہت پرانے درخت ہیں لیکن ان کی حفاظت ٹھیک طرح سے نہیں ہوتی۔ ان درختوں کو کیڑا لگ چکا ہے۔ معمولی ہوا چلنے سے ان کی ٹہنیاں گرتی ہیں۔ یہ درخت رُو بہ زوال ہیں۔‘
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ محمد طارق بشیر کے بقول ان درختوں کی حفاظت نہیں ہو رہی۔  
’میں نے دیکھا ہے کہ ان درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخوں کو ستون کی مدد سے سہارا دیا گیا ہے۔ میری چیف جسٹس صاحب سمیت تمام متعلقہ اداروں سے درخواست ہے کہ ان کو بچائیں کیونکہ یہ اڑھائی سو سالہ تاریخ کے امین ہیں۔‘

لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں برگد کے چھ درخت لگے ہوئے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

وکلا اور صحافی ان درختوں کی حفاظت کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس، بار ایسوسی ایشن کے صدور، ادارہ برائے قومی ورثہ، آثار قدیمہ سمیت تمام متعلقہ اداروں سے اپیل کی ہے کہ ان درختوں کے تحفظ کے لیے عملی طور پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ان سے جڑی تاریخ  محفوظ کی جا سکے اور ماحول کو بھی بچایا جا سکے۔‘

شیئر: