Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امرتا شیرگِل: روایت شِکن مصورہ جو اپنی لااُبالی طبیعت کی وجہ سے بدنام تھیں

شہزادی بمبا سدرلینڈ اور امرتا شیرگِل دونوں ہی پنجاب سے تھیں مگر ان دونوں کے درمیان ایک ایسا تعلق بھی ہے جو نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اوجھل رہا ہے۔
بمبا سدرلینڈ کا ماڈل ٹاؤن میں گھر اُجڑ چکا جبکہ امرتا شیرگِل کی واحد تصویر لاہور عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
بمبا سدرلینڈ نے اپنی ہی دھرتی میں اجنبیوں کی طرح جیون بیتا دیا جبکہ برصغیر کی فریدہ کاہلو کہلائی جانے والی امرتا شیرگِل نے اپنے رنگوں سے اس سرزمین کی پیاس بجھائی۔
دونوں میں ایک اور قدرِ مشترک بھی تھی۔ دونوں ایک ایسے دھاگے کے ساتھ ایک دوسرے سے بندھی ہوئی تھیں کہ عمروں کے غیرمعمولی فرق کے باوجود ان کا یہ تعلق ختم کرنا ممکن نہیں۔
پنجاب کی شہزادی بمبا مہاراجا دلیپ سنگھ کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے جب پہلی مرتبہ اپنے پُرکھوں کے پنجاب جانے کا فیصلہ کیا تو اخبار میں ایک اشتہار دیا۔
اس اشتہار کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ وہ ایک ایسی خاتون کی تلاش میں ہیں جو ثقافت اور موسیقی میں دلچسپی رکھتی ہو اور پنجاب یاترا میں ان کا ساتھ دے سکے۔
شہزادی بمبا کے اس اشتہار کے جواب میں بہت سی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے ایک میری اینٹونیٹ کی بھی تھی جو فرانسیسی حکومت کے اعلٰی سرکاری افسر اور جاگیردار کی بیٹی تھیں اور اوپرا ڈانس میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔
بمبا نے ان کی یہ درخواست قبول کر لی اور یوں دونوں پنجاب جانے کے لیے روانہ ہوئیں۔
میری اینٹونیٹ کی کچھ عرصہ بعد ایک تقریب میں امراؤ سنگھ شیرگِل مجیٹھیا سے ملاقات ہوئی، دونوں میں محبت بڑھی جو شادی پر منتج ہوئی۔ یہ امراؤ سنگھ شیرگِل کی دوسری شادی تھی۔
ان دونوں نے شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی بڈاپسٹ (ہنگری) کا رُخ کیا جہاں ان کی پہلی بیٹی امرتا شیرگِل کی پیدائش ہوئی جب کہ بمبا کا بھی انڈیا آنا جانا لگا رہا۔ یہ بمبا اور امرتا شیرگِل کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کبھی ٹُوٹ نہ پائے گا۔
امرتا شیرگِل کے والد امراؤ سنگھ شیرگِل اگرچہ پنجاب کے ایک بڑے جاگیردار تھے مگر برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف اور انڈیا کی تحریکِ آزادی کے حامی تھے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ان کے گہرے دوستوں میں شامل تھے۔

امرتا شیرگِل کے والد سکھ تھے، والدہ یہودی اور انہوں نے خود کیتھولک مذہب اختیار کیا (فائل فوٹو: سٹارز اَن فولڈ)

ان کا انقلابی سیاسی جماعت غدر پارٹی سے بھی تعلق رہا جس کے باعث انگریز راج نے ان کے لیے سیاست کرنا ناممکن بنا دیا اور ان کی بہت ساری زمین بھی ضبط کر لی گئی۔
امرتا شیرگِل کے فن پاروں میں بھی روایت سے بغاوت نظر آتی ہے تو اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ وہ ایک ایسے ماحول میں پلی بڑھیں جس میں بغاوت رچی بسی تھی۔
امراؤ سنگھ شیرگِل اور میری اینٹونیٹ کا بڈاپسٹ میں موجود اپارٹمنٹ جلد ہی ادب اور موسیقی کا مرکز بن گیا۔
ہنگری کے معروف شعرا، ادیب، موسیقار، کمپوزر اور اہل علم و دانش ان کے گھر میں ہونے والی تقاریب میں بطورِ خاص شریک ہوا کرتے۔
امرتا شیرگِل بچپن سے ہی اپنے والدین کے لیے دردِ سر بن گئی تھیں کیوں کہ وہ روایت پرستی سے کوسوں دُور تھیں جس کے باعث ان کے والدین ان کو ماہرِ نفسیات کے پاس بھی لے کر گئے۔
اداسیوں کے کینوس پر مصوری کرنے والی برصغیر پاک و ہند کی فریدہ کوہلو امرتا شیرگِل کی زیست کے کئی رنگ ہیں۔ان کے والد سکھ تھے، والدہ یہودی اور انہوں نے خود کیتھولک مذہب اختیار کیا۔ ایک اور بغاوت۔
امرتا شیرگِل کی چھوٹی بہن اندرا کی زیادہ دلچسپی موسیقی میں تھی۔ یہ خاندان پہلی جنگِ عظیم تک ہنگری میں قیام پذیر رہا۔

امرتا شیرگِل کی چھوٹی بہن اندرا گِل کی زیادہ دلچسپی موسیقی میں تھی (فائل فوٹو: فوٹو اِنک)

ہنگری میں قیام کے دوران ہی امرتا کا داخلہ اٹلی کے شہر فلورینس کے ایک کانونٹ میں کروا دیا گیا۔
اٹلی جو مائیکلو اینجلو، رافیل اور ڈاونچی کا دیس ہے مگر امرتا کے لیے اس وقت مشکلات پیدا ہوئیں جب انہوں نے سادہ تصاویر بنانے کے بجائے ایک ایسی تصویر بنائی جو قابلِ گرفت تھی۔
ان کی تصویر کے کردار برہنہ تھے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ انہوں نے اپنے ملحد ہونے کا اعلان کر دیا۔
چنانچہ امرتا کو اٹلی سے واپس لوٹنا پڑا اور شیرگِل خاندان نے دوبارہ انڈیا کا رُخ کیا۔ وہ زیادہ عرصہ مگر انڈیا میں نہیں ٹھہرے اور امرتا جب 16 برس کی ہوئیں تو شیرگِل خاندان پیرس کے لیے روانہ ہوا، کیوں کہ امرتا اس وقت تک رنگوں کے سحر میں کھو چکی تھیں۔
ان کا داخلہ پیرس کے ایک معروف آرٹس سکول میں کروا دیا گیا۔ پیرس ایسے ماورائی شہر نے امرتا کے فن کو ایک نئی جلا بخشی۔
سنہ 1934 میں 21 برس کی عمر میں امرتا شیرگِل انڈیا واپس لوٹیں تو جدید انڈین آرٹ میں ان کے فن کے چرچے ہونے لگے۔
وہ مشرق کی روایت پرست عورت کی طرح اپنا جیون بیتانا نہیں چاہتی تھیں، اسی لیے انہوں نے ایک بار پھر خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے کزن اور دوست ڈاکٹر وکٹر ایگن سے شادی کر لی۔

خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے امرتا نے اپنے کزن اور دوست ڈاکٹر وکٹر ایگن سے شادی کر لی (فائل فوٹو: سکرول ڈاٹ اِن)

میو سکول آف آرٹس کے باعث اس وقت تک لاہور برصغیر میں فنِ مصوری کا نمایاں مرکز بن چکا تھا۔
انڈیا کے سابق وزیراعظم آئی کے گجرال کے بھائی ستیش گجرال بھی کچھ عرصہ لاہور میں مقیم رہے تھے۔
گجرال خاندان کا تعلق جہلم سے تھا۔ رُوپ کرشنا بھی ان دنوں شہر کے ایک معروف مصور تھے جنہیں حیران کن طور پر امرتا کا کام متاثر کن نہیں لگا۔
ایک روز امرتا اپنی تصاویر دکھانے رُوپ کرشنا کے گھر گئیں جن کی مال روڈ کی جانب سے انارکلی کے شروع میں ہی راما کرشنا اینڈ سنز کے نام سے بُک شاپ تھی۔
ستیش گجرال بھی اس روز رُوپ کرشنا کے گھر پہ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ امرتا کی تصاویر باہر سڑک پر گری ہوئی تھیں۔
وقت نے اپنا کھیل کھیلا اور امرتا شیرگِل ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں جب کہ روپ کرشنا کے نام سے شاید ہی کوئی واقف ہو۔
امرتا سے قبل انڈیا میں کوئی دوسرا مصوری کے آہنگ کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کر سکا تھا، امرتا نے نہ صرف مصوری کے روایتی انداز سے بغاوت کی بلکہ مرد اور عورت کے فرسودہ تعلقات کی تشریح رنگوں کے دلچسپ امتزاج کے ساتھ کی۔
امرتا کی نجی زندگی بھی غیرمعمولی طور پر تلاطم خیز تھی۔ انہوں نے پہلا ابارشن 18 برس کی عمر میں کروایا۔

امرتا کی نجی زندگی بھی غیرمعمولی طور پر تلاطم خیز تھی، انہوں نے پہلا ابارشن 18 برس کی عمر میں کروایا (فائل فوٹو: فوٹو اِنک)

ہوا یوں کہ امرتا کے والدین نے ان کی شادی ایک مسلمان یوسف علی خان سے طے کر دی۔ چند ہفتوں بعد شادی ہونا طے پایا۔
یہ شادی تو نہ ہوئی مگر امرتا حاملہ ہو چکی تھیں۔
انہوں نے تب بڈاپسٹ کا رُخ کیا جہاں اگرچہ ابارشن کی قانونی طور پر اجازت نہیں تھی مگر امرتا کے کزن اور بعدازاں شوہر ڈاکٹر وکٹر نے ان کا ابارشن کیا۔
امرتا نے پیرس سے واپسی پر یہ اعتراف کیا کہ ’میں صرف انڈیا میں ہی پینٹ کر سکتی ہوں۔ میں ہر جگہ پینٹ نہیں کر سکتی کیوں کہ میں بہت زیادہ پراعتماد نہیں ہوں۔ یورپ پر پکاسو اور دوسرے مصوروں کا سحر طاری ہے۔ انڈیا صرف میرا ہے۔‘
امرتا اپنی لااُبالی زندگی کے باعث بدنام بھی خُوب ہوئیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کے بہت سے دوست تھے۔ کچھ کا تو یہ خیال ہے کہ وہ ہر دو گھنٹے بعد دوست تبدیل کرلیتی تھیں اور انڈیا ایسے رُجعت پسند معاشرے میں ایسی زندگی کسی طور پر قابلِ قبول نہ تھی۔
یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ کیا انہوں نے ایسی ہی زندگی گزاری؟ اس کا جواب شاید کبھی نہ مل سکے کیوں کہ امرتا کے پاس وقت ہی کہاں تھا۔
وہ تو ہمہ وقت کینوس پر جُھکی رنگوں سے کھیلتی رہتیں، گویا اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔

امرتا شیرگِل کی تصاویر میں عورت کی آزادی کے منظر دکھائی دیتے (فائل فوٹو: وِکی میڈیا)

وہ ایک شام کینوس پر جُھکتیں تو اگلی شام شاور لیتیں۔ امرتا کی تصاویر میں عورت کی آزادی کے منظر دکھائی دیتے۔
یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث فریدہ کاہلو اور امرتا شیرگِل کو فنِ مصوری میں حقوق نسواں کی جدوجہد کی بانی قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امرتا اور انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان گہری دوستی تھی مگر امرتا نے کبھی نہرو کا پورٹریٹ مصور نہیں کیا۔
اس بارے میں جب ان کی بائیوگرافی لکھنے والے اقبال سنگھ نے ان سے استفسار کیا تو امرتا نے بے ساختہ جواب دیا کہ ’کیوں کہ وہ بہت زیادہ وجیہہ ہے۔‘
امرتا اور نہرو کی تین سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں، تاہم ان کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔
امرتا اور نہرو کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا تھی؟ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے کہنا ممکن نہیں کیوں کہ امرتا کے والدین نے ان کے نام آنے والے نہرو کے تمام خطوط جلا ڈالے تھے۔
امرتا اپنی موت سے تین ماہ قبل اگست 1941 میں مستقل طور پر لاہور منتقل ہو گئیں جہاں انہوں نے 23 گنگارام مینشن میں ایک گھر کرایے پر لیا جس کی بالائی منزل پر امرتا کا سٹوڈیو تھا جب کہ وکٹر نچلی منزل پر اپنی پریکٹس کرتا تھا۔
امرتا پانچ دسمبر کو اپنی بے وقت موت سے قبل لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں اپنے فن پاروں کی نمائش کی تیاری کر رہی تھیں جب ان کی  موت کی خبر نے شہر کے علمی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی۔

جواہر لعل نہرو کے ساتھ امرتا کے تعلق کی نوعیت کیا تھی؟ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے کہنا ممکن نہیں (فائل فوٹو: گیٹی)

یہ بحث آج بھی جاری ہے کہ کیا امرتا کا قتل ہوا تھا کیوں کہ ان کے خاندان نے یہ دعویٰ کیا تھا اور ان کے خاوند وکٹر کو دوشی قرار دیا تھا جسے پولیس نے گرفتار بھی کیا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اور بار ابارشن کرواتے ہوئے جانبر نہ ہو سکی تھیں، وجہ جو بھی رہی ہو، پنجاب اور برصغیر نے ایک عظیم مصورہ کھو دی تھی۔ وہ ایک باغی رُوح تھی جس نے کبھی کسی کی پروا نہ کی تھی، زندگی کی بھی نہیں۔
یہ سات دسمبر کا دن تھا جب لاہور کے علمی حلقے امرتا کی ارتھی اٹھائے مال روڈ سے شمشان گھاٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔
امرتا اپنی 29 ویں سالگرہ سے کچھ روز پہلے ہی موت کی آغوش میں چلی گئی تھیں، انہوں نے زندگی سے غالباً وہ کچھ پالیا تھا جو وہ چاہتی تھیں۔ان کے فن پاروں کی نمائش کا انعقاد ان کی موت کے بعد کیا گیا۔
 انہوں نے رنگوں سے ایک ایسی دنیا بسائی جسے امرتا کے چاہنے والے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

شیئر: