Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بٹگرام میں چارپائی نما چیئر لفٹ سے بچوں کی جان کیسے بچائی گئی؟

خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی میں چیئر لفٹ کی ایک رسی ٹُوٹ جانے کے باعث دریا کے اوپر پھنسے پانچ افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے جبکہ تین افراد بدستور 900 فٹ کی بلندی پر مدد کے منتظر ہیں۔
اب تک پاکستانی فوج اور مقامی رضاکاروں کے اشتراک سے پانچ طالب علموں کو نکال لیا گیا ہے۔ مزید بچوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ 
پہلے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ایک بچے کو ریسکیو کیا گیا تاہم ہوا کا رخ تبدیل ہونے اور اندھیرے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو آپریشن معطل کرنا پڑا۔
عینی شاہدین کے مطابق فوج کے ہیلی کاپٹرز پہلے بچے کو ریسکیو کرنے کے بعد محفوظ مقام پر لے گئے جس کے بعد فوج، رییسکیو 1122 اور مقامی رضاکاروں کے اشتراک سے مزید بچوں کو بچانے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ’آرمی نے ریسکیو آپریشن میں تین اور بچوں کو ریسکیو کر لیا۔ اب تک کل پانچ بچے ریسکیو کیے جا چکے ہیں۔ باقی افراد کو نکالنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔‘ 
نادر خان اس وقت گھپ اندھیرے میں یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں اور زمینی ریسکیو آپریشن میں اپنی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مقامی رضاکاروں نے ایک چارپائی نما منی چیئر لفٹ تیار کی اور مسلسل تگ ودو کے بعد متاثرہ چیئر لفٹ تک رسائی حاصل کی۔‘
اس سے قبل عینی شاہد عمر رحمان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہاں صرف ہیلی کاپٹرز ریسکیو آپریشن نہیں کر رہے بلکہ مقامی رضاکاروں کی ٹیمیں بھی پہنچ چکی ہیں اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں بھی موجود ہیں۔‘ 
ان کے بقول ’بچوں کے والدین نے مقامی رضاکاروں کو ریسکیو آپریشن کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ وہ پرُامید تھے کہ ’ہیلی کاپٹرز کے ذریعے یہ ریسکیو آپریشن کامیاب ہو جائے گا۔‘
عینی شاہد عمر رحمان کے مطابق ’اندھیرے کے باعث وہ ریسکیو آپریشن ممکن نہ ہوسکا جس کے بعد مقامی رضاکاروں نے کام شروع کر دیا۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق ’آپریشن میں اب تک کل پانچ بچے ریسکیو کیے جا چکے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز کو بتایا گیا کہ پہلے رضاکاروں کی ٹیم نے ایک چارپائی نما منی چیئر لفٹ تیار کی اور پھر اسے مزید مضبوط بنانے کے لیے مختلف طریقوں سے رسیاں باندھی گئیں۔
سیف الاسلام نے اردو نیوز کو زمینی ریسکیو آپریشن سے متعلق بتایا کہ ’جب مسلسل کوشش کے بعد چارپائی نما چیئر لفٹ متاثرہ چیئر لفٹ تک پہنچی تو پہلے منی چیئر لفٹ سے متاثرہ چیئر لفٹ تک جال بچھایا گیا۔‘
’اس کے بعد دونوں جانب رابطہ کیا گیا تاکہ متاثرہ چیئر لفٹ میں موجود افراد کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔ جب دونوں جانب رابطہ قائم ہوا اور متاثرہ افراد کا اعتماد بحال ہوا تو چارپائی نما چیئر لفٹ سے ایک جال بچھایا گیا تاکہ بچے نیچے گرنے سے بچ جائیں۔‘
ان کے مطابق ’جب جال تسلی بخش قرار دے دیا گیا تو ایک بچے کو متاثرہ چیئر لفٹ سے دوسری جانب منتقل کر دیا گیا۔‘
’چارپائی نما ریسکیو منی چیئر لفٹ زیادہ وزن برداشت نہیں کر سکتی تھی لہٰذا ریسکیو ٹیم نے ایک بچے کو اپنی طرف پہنچا کر واپسی کا سفر شروع کیا۔‘

پہلے رضاکاروں کی ٹیم نے ایک چارپائی نما منی چیئر لفٹ تیار کی اور پھر مزید مضبوط بنانے کے لیے اسے رسیاں باندھیں (فوٹو: سکرین شاٹ)

عمر رحمان کے مطابق ’جب بچے کو محفوظ مقام تک لایا جا رہا تھا تو اِس جانب والدین اور مقامی افراد مسلسل دعائیں کر رہے تھے کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں یہ تار ٹوٹ نہ جائے۔ ہمارے پاس اس وقت صرف یہی آسرا تھا۔‘ 
 سیف الاسلام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب بچے کو بحفاظت دوسری جانب پہنچایا گیا تو مقامی افراد نے نعرے لگائے اور شکر ادا کیا۔‘
’ہمارے ساتھ موجود افراد نعرہ لگا رہے تھے اور اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔ وہاں مقامی افراد نے بچے کو تسلی دی اور اس کی خیریت دریافت کی۔‘
 سیف الاسلام کے مطابق ’بچہ اگرچہ صدمے کا شکار ضرور تھا لیکن ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ اب ان تمام بچوں کو بچا لیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ اس وقت تک پانچ بچوں کو ریسکیو کر لیا گیا ہے۔ فوج سمیت مقامی رضاکار ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔ ریسکیو 1122 کے اہلکار بھی اس وقت رسی کھینچنے اور دیگر امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

شیئر: