900 فٹ بلندی پر لفٹ میں پھنسے طلبہ کے ریسکیو کیلئے آپریشن جاری
منگل 22 اگست 2023 9:20
عطا الرحمٰن -اردو نیوز، اسلام آباد
خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں چیئر لفٹ میں پھنسے سکول کے چھ بچوں سمیت آٹھ افراد کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن شروع ہو گیا ہے۔
بٹگرام کی تحصیل آلائی میں پشتو کے مقام پر ایک چیٸر لفٹ کی تاریں ٹوٹنے سے آٹھ افراد زمین سے 900 فٹ بلندی پر پھنس گئے ہیں۔ اس علاقے میں طلبہ دوسری جانب سکول جانے کے لیے چیئر لفٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
بٹگرام پولیس کے ترجمان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ آج (منگل) صبح سات بجے چھ بچے اور دو اساتذہ چیئر لفٹ (ڈولی) میں اس وقت پھنس گئے جب اس کی ایک تار ٹوٹ گئی۔‘
چیئر لفٹ میں پھنسے ہوئے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے پاکستان فوج کا ہیلی کاپٹر پہنچ گیا ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق ایس ایس جی کی ماہر ٹیم آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئر لفٹ کی تین میں سے دو تاریں ٹوٹ چکی ہیں اور ہیلی کاپٹر سے پیدا ہونے والے ہوائی پریشر سے بچ جانے والی تار کے ٹوٹنے کا بھی خدشہ ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کو انتہائی محتاط انداز میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس سے قبل خیبر پختونخوا کی نگراں حکومت نے کہا تھا کہ چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے پشاور سے ہیلی کاپٹر بھیج دیا گیا۔
بٹگرام کی ضلعی انتظامیہ نے صوبائی حکومت کو ہیلی کاپٹر کے لیے درخواست دی تھی۔ جائے وقوعہ پر پہلے سے ہی ایک امدادی ٹیم موجود ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے اداراے این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ چھ بچوں سمیت آٹھ افراد چیئر لفٹ میں موجود ہیں۔ ’کیبل ٹوٹنے کی وجہ سے چیئر لفٹ تقریباً 900 فٹ کی بلندی پر درمیان میں پھنس گئی ہے۔‘
وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو فوری ریسکیو کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے پہاڑی علاقوں میں موجود تمام چیئر لفٹس پر حفاظتی انتظامات یقینی بنانے کا حکم دیا ہے۔
وزیر اعظم نے خستہ حال اور حفاظتی معیار پر پورا نہ اترنے والی چیئرلفٹس کو فوری طور پر بند کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق یہ خبر ملتے ہی مقامی مساجد میں اعلانات ہونے لگے اور ریسکیو ٹیموں کو مطلع کیا گیا۔
’چیئر لفٹ ایسی جگہ پھنس چکی ہے جہاں ہیلی کاپٹر کے بغیر مدد کرنا ناممکن ہے۔ ہیلی کاپٹر سروس کے لیے رابطہ کیا گیا ہے جو چند منٹ میں پہنچنے والا ہے۔‘
تحصیل الائی میں موجود سماجی کارکن احمد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود تاحال ریسکیو آپریشن شروع نہیں ہوا۔
’یہ علاقہ ضلعی ہیڈکوارٹر سے چار گھنٹوں ک دوری پر ہے اور یہاں آمد و رفت بھی کم ہوتی ہے۔ یہاں نیٹ ورک کا مسئلہ بھی ہے اس لیے کسی سے بروقت رابطہ نہیں ہو پایا۔ یہ دس افراد کسی بھی وقت دریا میں گر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر مشینری پہنچنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے اور انہیں صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہی ریسکیو کیا جا سکتا ہے۔
ہیلی کاپٹر کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار کیا جائے: ایئر فورس پائلٹ
پاکستان ایئر فورس کے سابق پائلٹ کیپٹن عاصم نور، جنہوں نے اپنے کیریئر میں کئی مشکل فضائی آپریشن کیے ہیں، نے بٹگرام میں چیئر لفٹ پر پھنسے افراد کو بچانے کے لیے جاری آپریشن کو انتہائی مشکل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پائلٹس کے لیے وقت کم ہے، بہتر ہے کہ کوئی دوسرا رستہ بھی اختیار کیا جائے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس آپریشن میں ہوا کا بہت کردار ہے اور بدقسمتی سے اس وقت ہوا مخالف سمت میں ہے جس کی وجہ سے آپریشن بہت مشکل ہو رہا ہے۔
کیپٹن عاصم نور نے اپنے کیرئیر کے دوران کمانڈوز کے ساتھ کئی فضائی آپریشنز کیے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں اندھیرا ہو جائے گا جس کے بعد ہیلی کاپٹرز کے لیے یہ مہم جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ جلد کوئی دوسرا رستہ اختیار کر کے پھنسے ہوئے افراد کو اتار لیا جائے۔
’انہیں چاہیئے کہ پُلی کے ساتھ بندھی ہوئی ایک رسی کو آہستہ آہستہ کھینچ کر زمین کے قریب لے آئیں اور سطح کے قریب لا کر پھنسے ہوئے افراد کو اتار لیں۔‘
کیپٹن عاصم نور نے کہا کہ ہیلی کاپٹر کو اس آپریشن کے لیے زیادہ وقت ایک جگہ پر مقیم رہنا ہوتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہوا کا رخ اس کی سمت ہو جو کہ ابھی نہیں ہے۔
کیپٹن عاصم نور کے مطابق ان افراد کو یا تو ہیلی کاپٹر یا پلی کی رسی کھینچ کر بچایا جا سکتا ہے اور بظاہر کو ئی تیسرا رستہ نہیں ہے۔