Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن تو ہو گا مگر کیسا؟ ماریہ میمن کا کالم 

ن لیگ کی قیادت کو اعتماد ہے کہ نواز شریف ان کے بیانیے میں جان ڈالیں گے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
آخر بڑی مشکل اور منتوں مرادوں سے الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ جنوری کے آخری ہفتے میں ملک میں انتخابات ہوں گے اور اس کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں کو شروع ہو جانا چاہیے تھا مگر ابھی تک وہ ماحول بنتا نظر نہیں آ رہا۔
28 جنوری کی تاریخ کا ذکر کچھ عرصے سے اسلام آباد میں سنائی دے رہا تھا اور الیکشن کمیشن ’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘ کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔
اس اعلان میں ایک خوشگوار حیرت یہ تھی کہ اس سے پیش تر مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بارے میں مارچ/اپریل کی بات ہو رہی تھی۔ اب اس کو حسن اتفاق کہیں یا کارکردگی کہ چار مہینے کا کام دو مہینے میں طے پا رہا ہے۔
الیکشن بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کا شو ہوتا ہے۔ نگراں حکومت کا کام صرف ایک عارضی انتظام کے طور پر ضروری امور مملکت چلانا ہوتا ہے مگر اس نگراں حکومت نے الیکشن کے علاوہ ہر کام بشمول معیشت، خارجہ امور، نجکاری وغیرہ پر توجہ دی ہے۔ کم کم ہی ان کی طرف سے الیکشن کا ذکر ہوتا ہے۔ نگراں وزیراعظم کو دورہ امریکہ میں البتہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بارے میں سوال کا جواب دینا پڑ گیا۔
ان کے مطابق الیکشن عمران خان کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔ اسی جواب میں بہت سارے جواب بھی چھپے ہوئے ہیں مگر کچھ سوالوں کے جواب وقت کے ساتھ ہی سامنے آئیں گے۔ مثلاً کیا تحریک انصاف بطور جماعت بلے کے نشان پر بیلٹ پیپر پر موجود ہو گی؟ اور عمران خان کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف کی قیادت کس کے پاس ہو گی؟ مزید کیا تحریک انصاف کا اگلے سیٹ اپ میں کوئی کردار ہو گا؟
الیکشن میں سب سے آرام دہ پوزیشن پر ن لیگ کو ہونا چاہیے مگر ان کی طرف سے سرے سے الیکشن وقت پر کروانے کی کوئی کوشش ہی سامنے نہیں آئی، بلکہ ان کی ہر ممکن کوشش نظر آ رہی ہے کہ الیکشن اگر آگے ہی ہو جائیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔
اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ نگراں حکومت میں ان سے منسلک افراد مناسب تعداد میں موجود ہیں مگر اصل وجہ نواز شریف کی واپسی اور بیانیے کا بحران ہے۔ نواز شریف کی واپسی میں قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ optics  کا بھرپور چیلنج سامنے ہے۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں جب عمران خان جیل میں ہوں گے تو نواز شریف بقول ان کی جماعت اپنے ووٹرز کے درمیان آ کر الیکشن مہم کا آغاز کریں گے۔

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے مطابق الیکشن عمران خان کے بغیر بھی ہو سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف کو دیکھا جائے تو یہ عین انصاف ہو گا مگر سوال یہ بھی ہے کہ غیر جانبدار حلقے اس نظارے کو کس طرح لیں گے؟ ن لیگ کا دوسرا چیلنج بیانیے کا بحران ہے۔ ووٹ کو عزت دو تو کب کا سرد خانے میں گیا۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کا ذکر اس عوام کو کیا متاثر کرے گا جن کے بجلی کے بل ان کے مکان کے کرایوں اور بچوں کی تعلیم کو ملا کر بھی زیادہ ہیں۔
اب دوبارہ جھاڑ پونچھ کر سابق عدلیہ اور عسکری سربراہان کے خلاف پھر بیانیہ بنایا جا رہا ہے جو ’اگر 2017 میں یہ نہ ہوتا‘ سے شروع ہوتا ہے۔ اس بیانیے کے ساتھ مفروضہ یہ ہے سب لوگ سب کچھ بھول کر سات سال پیچھے جا کر نواز شریف صاحب کے سنہرے دور کو پھر سے شروع کریں۔
مسئلہ یہ بھی ہے آج 18 برس کا ووٹر سات سال پہلے 11 سال کا تھا اور اس کو دلچسپی آنے والے کل سے ہے نا کے گزرے ہوئے کل سے۔ اس آنے والے کل کا ن لیگ کی قیادت کے پاس کوئی جواب نہیں مگر انہیں اعتماد ضرور ہے کہ نواز شریف ان کے بیانیے میں جان ڈالیں گے۔ کیا نواز شریف ہی ان کے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے، اس کا جواب کچھ شہباز شریف نے دیا تو ہے مگر ابھی بہت مسافت باقی ہے۔
ملک کی بدلتی سیاست کا ایک کم ڈسکس ہونے والا سرپرائز پیپلز پارٹی کی موسٹ فیورٹ پارٹی سے تنزلی ہے۔ نگراں حکومت کے قیام سے مکمل باہر رکھے جانے کے بعد سندھ میں انتظامیہ سے محرومی سے لے کر ان کی طرف تیور بھی بدلتے نظر آ رہے ہیں مگر اس میں ابھی ان کی طرف سے احتیاط کا عنصر نمایاں ہے۔ غالباً ان کو ابھی بھی امید ہے کہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں جلد دور ہو جائیں گی۔

ملک کی بدلتی سیاست کا ایک کم ڈسکس ہونے والا سرپرائز پیپلز پارٹی کی موسٹ فیورٹ پارٹی سے تنزلی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قرائن البتہ کچھ اور نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو امیدیں زیادہ باندھ لی تھیں مگر اب تو سندھ میں بھی سرپرائز کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ ان کی سیاسی اور انتظامی گرفت کچھ عرصہ پہلے تک عروج کا ہی سفر طے کر رہی تھی جس کا اظہار کراچی میئر کے الیکشن میں بھی سامنے آیا۔
اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی طرف سے نظر آنے والے اضطراب کی کچھ ٹھوس وجوہات ضرور ہیں۔ گذشتہ کچھ ماہ کی سیاسی کشکمش کا ایک ہی سبق ہے کہ الیکشن سے جتنی بھی جان چھڑانے کی کوشش کی جائے ملک میں تسلسل اور استحکام کے لیے الیکشن ناگزیر ہیں۔
سیاسی، معاشی اور خارجہ امور پر ایک منتخب حکومت کے فیصلوں کو ہی قبول عام حاصل ہوتا ہے۔ عوام کا سامنا بھی صرف منتخب حکومت ہی کر سکتی ہے اور عالمی فورمز پر نمائندگی کا اگر کچھ وزن ہوتا ہے تو وہ بھی الیکشن میں منتخب حکومت کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
اس دفعہ تو قوانین میں ایسی تبدیلیاں بھی کی گئی جس کے تحت نگراں حکومت کے اختیارات بھی بڑھائے گئے اس کے باوجود نگراں وزرا نہ اس طرح عوام کا مہنگائی پر سامنا کر پا رہے ہیں اور نہ ہی اہم معاملات پر پر بیانات سے بڑھ کر ان کی طرف سے اقدمات سامنے آئے ہیں۔
آگے آئی ایم ایف سے دوبارہ مذاکرات بھی ہونے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری اور معاہدوں سمیت اہم منصوبوں پر کام بھی شروع ہونا ہے، ہر دو صورتوں میں ایک منتخب حکومت کا ہونا ضروری ہے۔

جنوری کے آخری ہفتے میں ملک میں انتخابات ہوں گے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سوال البتہ یہ بھی ہے یہ الیکشن تو ہو گا مگر کیسا؟ کیا اس الیکشن کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام آئے گا یا پھر ایک نئی طرح کے عدم استحکام کی بنیاد رکھی جائے گی؟ کیا تاریخ اس انتخاب کو فری اور فیئر کی حیثیت سے یاد رکھے گی یا پھر لیول پلینگ کی شکایت بڑھتی چلی جائے گی؟

شیئر: