Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نو الیکشن اور پھر الیکشن کے بعد کوئی نیا پڑاؤ تو سامنے نہیں؟ ماریہ میمن کا کالم

موجودہ نگراں حکومت کی آمد کے کچھ ہی ہفتوں میں قرائن کئی بار بدلے ہیں (فوٹو: اے پی پی)
الیکشن، نو الیکشن، پھر الیکشن اور اب ملک میں نگراں حکومت قائم ہے۔ آئین اور رواج کے مطابق نگراں حکومت دو منتخب حکومتوں کے درمیان عرصے میں روز مرہ انتظام و انصرام اور الیکشن کے انتظامات کے لیے لائی جاتی ہے۔
موجودہ نگراں حکومت کی آمد کے کچھ ہی ہفتوں میں قرائن کئی بار بدلے ہیں۔ سب سے پہلے تو آئین کے تحت صرف الیکشن کرانا ان کا کام ہے مگر جب نگراں حکومت آئی تو ایسا تاثر سامنے آیا کہ گویا ابھی الیکشن والی دلی دور ہے۔ ایک دو ہفتوں میں ہی صورتحال کچھ ایسی بدلی کہ دوبارہ الیکشن قریب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اتنے سے عرصے سے نو الیکشن سے پھر الیکشن کا سفر کیسے طے ہوا؟ اس سفر کا آغاز تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کے التوا سے ہو چکا تھا۔ اگرچہ دونوں صوبوں میں الیکشن التوا کی دلیل یہی دی گئی کہ ملک میں استحکام کے لیے مناسب ہو گا کہ تمام الیکشن ایک ہی دن کرائے جائیں۔ مگر جب آئینی حددو کو حالات کے مطابق موڑنے کا سلسلہ چلا تو سب کو اندازہ تھا کہ بات صوبوں میں انتخابات کے التوا تک نہیں رکے گی۔ اس کے بعد جاتی اسمبلی سے ایسی ترامیم کرائی گئیں جن کے تحت نگراں حکومتوں کے روائتی اختیارات سے بڑھا کر اختیارات بھی دیے گئے۔
اس کے بعد اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر کے 90 دن کا بندو بست بھی کیا گیا۔ سب سے اہم مردم شماری کو آخری وقت میں منظور کر کے حلقہ بندیوں کا جواز بھی پیدا کیا گیا۔
نگراں وزیراعظم کے انتخاب میں بھی اس طرح کی پراسراریت اور سرپرائز کا عنصر تھا کہ یہی تاثر سامنے آئے کہ یہ حکومت 90 دن والی نہیں ہے۔ نگراں وزرا نے بھی آنے کے بعد دور رس اصلاحات کا ذکر شروع کر دیا۔ اربوں ڈالر کی باتیں ہونے لگیں اور بات مارچ 2024 سے بھی آگے جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ اسی دوران طویل مدت منصوبے میں روڑے اٹکتے بھی نظر آنے لگے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جو حکومت جانے سے ایک ہفتہ پہلے تک شیر و شکر ہو کر اجلاسوں میں منظوری دے رہی تھی، کی طرف سے پہلے تو نگراں وزیراعظم کی نامزدگی پر دبا دبا تبصرہ سامنے آیا۔ نگراں کابینہ میں ن لیگ سے وابستہ افراد کی اکثریت اور پیپلز پارٹی کے ہمدردوں کی عدم موجودگی سے بھی کافی سوالات سامنے آئے۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی طرف سے 90 دن میں الیکشن پر اصرار بھی شروع ہو گیا۔ وہ جماعت جو ان تمام اقدمات میں حصہ دار تھی جن سے الیکشن آگے لے جانے کا بند وبست ہوا وہ بہت جلد ہی الیکشن وقت پر کروانے کی دعوے دار بن گئی۔ اس تفریق کی باقی نشانیوں میں باپ (پارٹی) سے الحاق یا ضم نا ہونا اور سندھ میں اعلٰی سرکاری افسران کی تعیناتی بھی منظر پر ظاہر ہوئی۔

غیر مصدقہ خبروں کے مطابق 28 جنوری کو الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی تفریق تو شاید مینیج بھی ہو جائے مگر عوام کی اقتصادی مشکلات اور یکے بعد دیگرے قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں جو ردعمل سامنے آیا اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ بجلی، تیل اور چینی کی قیمتوں کو جو پر لگے ہیں ان کی واپسی کی کوئی صورت نہیں۔ ڈالر 325 روپے میں بھی دستیاب نہیں اور سٹاک مارکیٹ مستقل نیچے جا رہی ہے۔
نگراں حکومت کا اعتماد بھی اسی تیزی کے ساتھ نیچے گیا۔ اس وقت کوئی وزیر بھی نگراں حکومت کے طرف سے اپنے منصوبوں کا اعادہ کرنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ جیسے جیسے ملک میں معاشی اور عوامی حالات بدل رہے ہیں اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی مختلف اشارے سامنے آ رہے ہیں۔ حلقہ بندیاں بھی 30 نومبر تک مکمل کرنے کی تاریخ سامنے آئی ہے اور اس کے ساتھ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق 28 جنوری کو الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے۔
یہ تمام خبریں گذشتہ 48 گھنٹوں میں ہی سامنے آئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر الیکشن کی سرگرمیاں تو نہیں مگر ان کا ذکر ضرور شروع ہو گیا۔

نواز شریف کی اکتوبر میں واپسی کا ایک بار پھر اعلان ہو چکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

لندن ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے اور پنجاب اور سندھ سمیت کئی رہنما لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کرتے پائے جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی اکتوبر میں واپسی کا ایک بار پھر اعلان ہو چکا ہے جو جنوری فروری کی مجوزہ تاریخ سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس وقت یعنی آج کے دن حالات نو الیکشن سے ہوتے ہوئے پھر الیکشن کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس کی وجوہات واضح ہیں۔ عوام کا اجتجاج اب غصے میں بدلتا جا رہا ہے اس سے منتخب حکومت ہی ڈیل کر سکتی ہے۔ سیاسی طور پر بھی پرانی سیاسی جماعتوں کے لیے آئینی پابندی سے انحراف ایک بہت بڑا سیاسی طعنہ بن جائے گا۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی الیکشن کے التوا کی قبولیت ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گی۔ آئی ایم ایف کی دی گئی مدت کچھ ہی ماہ بعد ختم ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات دور رس اور کئی شعبوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔
قانونی جواز اپنی جگہ مگر اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ نگراں حکومت کے ساتھ تین یا چار سال کے لیے اصلاحات شروع کریں۔ سوال یہ بھی ہے اگر الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے آگے لے جانے کا منصوبہ تھا تو وہ کن معروضی حالات کے لیے بنایا گیا؟ فی الحال تو زمینی حالات دیکھیں تو بات پھر الیکشن کی طرف ہی جاتی نظر آ رہی ہے۔ معاشی اور آئینی مسائل سے نکلنے کا ابتدائی راستہ تو ایک آزاد اور منصفانہ الیکشن میں ہی ہے۔ اب بس دیکھنا ہے کہ نو الیکشن اور پھر الیکشن کے بعد کوئی نیا پڑاؤ تو سامنے نہیں؟

شیئر: