Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عمران خان کے بغیر انتخابات‘ نگراں وزیراعظم کے بیان میں کیا پیغام ہے؟

تحریک انصاف نے چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات کو غیر اخلاقی و غیرآئینی قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں جب جب بھی انتخابات کا ذکر ہو رہا ہے دو اہم سوال تکرار سے پوچھے جا رہے ہیں۔ جن میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ انتخابات کب ہوں گے جس کا جواب گذشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر دیا کہ انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں ہوسکتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف ان انتخابات میں بطور جماعت حصہ لے سکے گی؟ جس کا بظاہر جواب تو یہی تھا کہ تحریک انصاف ابھی تک قانونی طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے اور وہ حصہ لے سکتی ہے، لیکن عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے کوئی واضح جواب کہیں سے بھی نہیں مل رہا تھا۔
اس حوالے سے حکومتی سطح پر پہلی بار نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ’عام انتخابات عمران خان کے بغیر بھی شفافیت سے ہو سکتے ہیں۔‘
بظاہر تو انہوں نے یہ بیان ایک سوال کے جواب میں دیا لیکن پاکستان کی سیاسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس بیان کو سنجیدہ اور واضح پیغام سمجھا جا رہا ہے۔  
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’جیل کاٹنے  والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ پی ٹی آئی میں شامل ہزاروں افراد جو غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں، وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔‘
اس بیان سے ایک بات تو واضح ہوئی ہے کہ عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا کوئی پلان فی الوقت ریاستی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہے۔  
اس صورت حال پر تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’کافی دنوں سے سرگوشیوں میں یہ باتیں کی جا رہی تھیں تو یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بڑے حکومتی عہدیدار نے برملا یہ بات کہی ہے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی زیادہ ہے اور واضح پیغام ہے کہ شاید ریاست کو عمران خان کی انتخابی عمل میں موجودگی قابل قبول نہ ہو۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’اس میں ایک اور پیغام تحریک انصاف کے رہنماؤں اور الیکٹ ایبلز کے لیے بھی ہے کہ جب ریاست کو عمران خان کی انتخابی عمل میں موجودگی قابل قبول نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کے لیے بھی تحریک انصاف میں رہتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینا مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے سیاسی مستقبل کا انتظام کر سکتے ہیں۔‘ 

تحریک انصاف نے نگراں وزیراعظم کے بیان کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس پر سخت ردعمل دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار اجمل جامی نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ ’نگراں سرکار کے ہاں سے ایسے بیانات نہیں آنے چاہییں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے بیان کے ذریعے ریاستی پالیسی بیان کر دی ہے جو ان کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ یہ باتیں تو ایک عرصے سے ہو رہی تھیں کہ مائنس عمران انتخابات ہوں گے لیکن نگراں حکومت کو ایسے بیانات نہیں دینے چاہییں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’یہ غیرآئینی اور غیرجمہوری بیان ہے جس کا دفاع کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ بیان تو حکومت اور ریاست دونوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے مترادف ہے اور وقت سے پہلے آ بیل مجھے مار والی بات ہے۔‘ 

تحریک انصاف کا سخت ردعمل

تحریک انصاف نے بھی نگراں وزیراعظم کے بیان کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس پر سخت ردعمل دیا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے اپنے بیان نے نگران وزیراعظم کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف نے چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر انتخابات کو غیر اخلاقی و غیرآئینی قرار دیا ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کا بیان ریاستی ڈھانچے میں پائی جانے والی عدم حساسیت کا مظہر ہے۔ تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔ ’عمران خان یا تحریک انصاف کے بغیر کرایا گیا الیکشن غیرآئینی، غیراخلاقی ہو گا، ایسے انتخابات کو عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے۔‘  
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود کا کہنا ہے کہ ’نگراں وزیراعظم کا بیان اس لیے بھی اہم ہے کہ انہوں نے یہ بات ایک عالمی ادارے کو انٹرویو میں کہی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہماری ریاست دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ انتخابات میں عمران خان نہیں ہوں گے اور وہ اس کے باوجود شفاف ہوں گے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’اگر مقامی سیاسی صورت حال کے تناظر میں دیکھیں تو جہاں تحریک انصاف سے وابستہ رہنماؤں کے لیے پیغام ہے وہیں سابق حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ ن کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہو گا بلکہ انہیں اپنی اتحادی جماعتوں سے مقابلہ کرنا ہو گا۔‘  
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’نگراں وزیراعظم چاہتے تو عمران خان سے متعلق بیان پر ویل لیفٹ کا آپشن بھی استعمال کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے نام لے کر صورت حال واضح کی۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کے بیان کو محض بیان نہیں پیغام تصور کیا جانا چاہیے۔‘

شیئر: