Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منگنی، شادی، گیٹ ٹو گیدر تقریبات ، دورِ حاضرمیں گلے کا ہار

آج کل ہم تعزیت کیلئے آنے والوں کی مدارت میں بھی فضول خرچی کرتے ہیں
* * * تسنیم امجد ۔ ریاض* * *
جب آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو مشکل اور مجبوری میں ادھاریا پھر کمیٹیاں ڈالنا واحد سہارا ثابت ہوتا ہے۔ اکثر تو خود کو بے جا اخراجات کے ہاتھوں مقروض کرلیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک’’ گیٹ ٹو گیدر‘‘ میں کچھ خواتین ایک گروپ بنانے کی کوشش میں تھیں جوان کے ساتھ کمیٹی ڈالے۔ آخر کامیابی سے دو گروپ تشکیل پاہی گئے۔ جو خواتین اپنی مجبوری بتا رہی تھیں کہ انہیں گھر کا کرایہ دینا ہے، ان کے حوالے سے ہم جانتے تھے کہ ان کے شوہر اچھا بزنس کر رہے ہیں۔ بچے بھی اچھے اسکولوں میں تھے پھر یہ ضرورت کس لئے؟ دوسری خاتون کے شوہر کو کمپنی کی جانب سے گھر کے کرائے کی مد میں 45 ہزارملتے ہیں۔ہم نے ان سے اس سلسلے میں ڈرتے ڈرتے استفسار کیا تو بولیں کہ ہاں وہ تو ملا تھا ،تب میں نے گھر کا فرنیچر وغیرہ بدل لیا تھا۔ کچھ سالانہ تقریب پر لگا یا ، آخر بچوں کی خواہش بھی تو دیکھنی ہوتی ہے ناں ۔
ہم حیرانی سے ان کا منہ تکتے رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں مہنگائی ہے اور ہم اسکا رونارونا بھی باقاعدگی سے روتے رہتے ہیں لیکن اس سے مقابلہ کرنے کا نہیں سوچتے۔ مڈل کلاس طبقہ سب سے زیادہ مشکل میں ہے ۔اسے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ان حالات کا ایک سبب معاشرے کی بے اعتدالی اور دین اسلام کی تعلیمات عالی سے دوری ہے جو ہمیںاعتدال کی راہ دکھلاتا ہے۔ آج قناعت، سادگی اور میانہ روی کی جگہ دکھاوے، لالچ اور ہوس نے لے لی ہے۔ مسابقتی دوڑ نے عجیب ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ایک خاتون بولیں کہ میری اپنے شوہر سے آجکل لڑائی چل رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نئے ماڈل کی گاڑی نہیں لے رہے۔ میں کہتی ہوں کہ ہم کسی نہ کسی طرح ماہانہ قسطیں دے دیں گے لیکن کم از کم یہ تسلی تو ہوگی کہ گاڑی کا ماڈل نیا ہے۔
سہیلیوں اور عزیز و اقارب کے سامنے شرمندگی نہیں ہوگی بلکہ شان بنے گی۔ دوسری خاتون نے سرگوشی میں اپنی برابر والی خاتون سے کہا کہ میرے میاں تو ان کے شوہر کے آفس میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شخص گاڑی نکلوانے کی درخواست دے چکا ہے جس پر میرے شوہر نے اسے سمجھایا کہ اتنی مہنگی گاڑی لیکر باقی اخراجات کیسے پورے کرو گے۔ 5 برس تک قسطیں دو گے، اتنے عرصے میں تو یہ ماڈل بھی پرانا ہوجائے گا۔ انسان ہر آسائش فوری طور پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چاہے اس کے لئے اسے غلط راستوں کا انتخاب ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ عالیشان ا ور پرآسائش گھر، نئے ماڈل کی گاڑی، نت نئے مہنگے ترین ملبوسات، پارلر، تقریبات ، پارٹیاں ، کس کس کا ذکر کریں، ان سب نے انسان کو بالکل اندھا کرکے رکھ دیا ہے۔ جائز اور ناجائز کا احساس ہی نہیں رہا۔ جرائم کے پس پردہ بھی یہی مادیت پسندی کار فرما ہے۔ ہر شخص راتوں رات دنیا کی ہر آسائش حاصل کرنا چاہتا ہے خواہ اس کے لئے اسے کسی کا گلا ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے۔ اس مادیت میں سچ تو یہ ہے کہ اس کے فروغ میں خواتین کا زیادہ حصہ ہے۔
ماضی میں خواتین میں سادگی عام تھی ۔وہ کم آمدنی میں بھی اخراجات کو سمیٹے گھر کی ساکھ قائم رکھنے کا عزم رکھتی تھیں۔ ہر تقریب میں پہلے سے موجود کپڑوں کو کوئی نہ کوئی نئی شکل دے دیتی تھیں۔ گھر کے ٹوٹکے ہی حسن کو نکھارنے کیلئے کافی تھے۔ ہمیں یاد ہے ،دادی جان چولھے میں جلے کوئلوں سے منجن بناکر باتھ روم میں رکھوا دیتیں۔ لڑکیاں بیسن سے منہ دھوتیں اور دودھ سے اتری بالائی ان کے لئے آج کی کسی برانڈڈ کریم سے کم نہ تھی۔ مسز نصیر بتا رہی تھیں کہ ہمارے گھر میں زرق کی خوب ریل پیل تھی، کاروبار میں برکت تھی اور گھر میں دو سے تین ملازم بمع فیملی رہتے تھے۔
میری یہ عادت تھی کہ مہینے بھر کا راشن خود مارکیٹ جاکرلاتی اور اسٹور میں ڈال دیتی ۔ برسہابرس کی اس عادت نے مجھے خرچے میں نہایت سگھڑ بنا دیا تھا۔ اسٹور یعنی گودام کی چابی میرے پاس رہتی تھی ۔ گھر کا حساب کتاب میرے ہی ہاتھ میں تھا۔ہوا یوں کہ بیٹے کی شادی کا موقع تھا اورشہر بھر میں چینی کی شدیدقلت تھی ۔ نصیر صاحب پریشان تھے کہ زردے کی دیگیں کیسے اتریں گی ؟ رات کے کھانے پر انہوں نے ذکر کیا اور بولے لاؤ بیگم ذرا فون لا کر دینا، ادھر اُدھربات کر کے دیکھتا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہر ہاتھ میں فون نہیں ہوتا تھابلکہ ایک ہی لائن گھر میں ہوتی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ آئیں فون سے پہلے میرے ہمراہ گودام میں چلیں۔ وہاں میں نے ہر ماہ کی بچت کی چینی کی چا ر بوریاں انہیں دکھائیں جنہیں دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے اور کہنے لگے کہ ہمیں صرف دوبوریوں کی ضرورت ہے۔ تفصیل سن کر ان کی آنکھوں میں جو چمک دکھائی دی ، وہ میں آج تک نہیں بھول پائی۔انہوں نے کہا کہ ابھی ہمیں بلیک میں چینی لینا پڑتی جو تقریباً دگنی قیمت پر ملتی۔ آج بھی گھر والیاں کسی نہ کسی انداز میں بچت کرسکتی ہیں لیکن منگنی، شادی، سالانہ تقاریب اور گیٹ ٹو گیدر جیسی سوغاتیں دورِ حاضر میں گلے کا ہار بن چکی ہیں۔
انہی کے گرد کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ترستے ہیں۔ ایک ہی معاشرے میں رہنے والوں میں تضاد یقینا برائیوں کو جنم دیتا ہے:
ان کے لئے بھی کوئی بشارت میرے مولا
 خوابوں کے سوا جن کو میسر نہیں کچھ بھی
 ایک متوسط خاندان اپنی بیٹی کی شادی کے لئے قرض لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یوں بیٹی تو رخصت ہوجاتی ہے لیکن خاندان کا قرضہ انہیں برسوں اذیت دیتا رہتا ہے جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کروڑوں روپے کے قرض لے کر عیش کرتا ہے پھر اثر و رسوخ سے اسے معاف بھی کروالیتا ہے ۔ ایک خاتون کے کیا کہنے جو دلائل سے یہ ثابت کررہی تھیں کہ یورپ و امریکہ میں ہر شخص قرضوں کی بنیاد پر زندگی بسر کررہا ہے اور سانس کے سوا ان کا اپنا کچھ بھی نہیں۔
ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں بھی قرض اور اسی کی بنیاد پر ضروریات زندگی کا حصول غلط نہیں، وہ ہنستے ہوئے بولیں:
جینا ہے چار روز تو اے صاحب خرد
 گہری نظر نہ ڈال فریب حیات پر
 افسوس ہم تو آجکل تجہیز و تکفین اور تعزیت کے لئے بھی آنے والے سوگواروں کی خاطر مدارت پر اٹھنے والے اضافی ہنگامی اخراجات میں بھی فضول خرچی کرتے ہوئے اپنے پاؤں چادر سے باہر نکال لیتے ہیں۔ دکھ و پریشانی تو ایک طرف قرض کا بوجھ بھی جینا دوبھر کردیتا ہے۔ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ ہم اجتماعی لحاظ سے ذہنی افلاس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

شیئر: