Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اجارہ داری

مسلم دنیا کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح وہ براہ راست یا بالواسطہ جنگوں سے خود کو الگ کرے
- - - - -  - - - -
محمد مبشر انوار
- - - - - - - - -
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرونی دورے کا انتخاب انتہائی حیران کن کیا ہے۔ اپنے پہلے بیرونی دورے کے لئے سب سے پہلی نگاہ انتخاب مسلمانوں کے مرکز و محور سعودی عرب پر پڑی،جس کے لئے یقینی طور پر نائب ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی کاوشوں کا بڑا دخل ہے جبکہ سیاسی طور پر بھی دیکھا جائے تو مسٹر ٹرمپ کی اس پالیسی کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور یہ امیدیں بندھیں کہ امن کی خاطر ممکن ہے کہ مسٹر ٹرمپ اپنے انتخابی نعروں سے ہٹ کر حقیقتاً کوئی مثبت کردار ادا کر سکیںاور سلگتی جلتی دنیا کو بتدریج ہی سہی ،امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کا فیصلہ تو آنے و الا وقت کرے گا کہ کیا واقعی صدر ٹرمپ امن کی خاطر سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں یا ہمیشہ کی طرح اپنے پیشروؤں کی مانند فقط طفل تسلیاں دے کر اپنی مدت صدارت بخوبی گزار تے ہیں۔
کسی بھی امریکی صدر کے لئے سب سے اہم مسئلہ نہ صرف معاشی ترقی رہی بلکہ نوجوانوںکے لئے زیادہ سے زیادہ روزگار کی فراہمی بنیادی عنصر رہے ہیں،صدر ٹرمپ کے لئے بھی یہی بنیادی آزمائشیں ہیں،جن سے عہدہ برآ ہونے کی کوششوں میں وہ ابھی سے مصروف عمل ہیں۔ اپنے پیشروؤں کے برعکس صدر ٹرمپ ،دنیا بھر کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے صرف امریکہ اور اس کے مفادات کو سامنے رکھ رہے ہیں جبکہ ان سے قبل بھی امریکی مفادات کا تحفظ کیا جاتا تھا مگر اس میں سارے کا سارا کیک امریکہ کے ہاتھ نہیں ہوتا تھا،کچھ تھوڑا بہت باقی دنیا کے لئے بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ صدر ٹرمپ کے پہلے دورے سے دنیا بھر کو یہ پیغام ملنا تھا کہ وہ ساری دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں یا اپنے انتخابی نعروں کے عین مطابق اپنی مخصوص پالیسی کا اجرا ء کریں گے گو کہ صدر ٹرمپ نے کمال خوبصورتی سے اپنے بیرونی دورے کا آغاز مسلمان ریاست سے تو کیا ہے مگر کیا مسلم دنیا کے تحفظات کو دور کرنے کی کوئی عملی کوشش بھی کی ہے؟ مسلم دنیاکو درپیش بالعموم اور سعودی میزبانوں کو درپیش خصوصی مسائل کا ازالہ کیا گیا ہے؟ بدقسمتی سے امریکہ دہرے معیار کے ساتھ فقط اپنے مفادات کا اسیر ہے جبکہ مشرق میں آج بھی تعلقات میں خصوصی نوعیت دیکھی جاتی ہے۔ اخلاق،رواداری ،وضع داری جیسے معیارات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، خلوص، اپنائیت، بھرم کے ساتھ تعلقات کو نہ صرف سینچا جاتا ہے بلکہ ان کی خون دل سے آبیاری کی جاتی ہے۔
بیشتر مواقع پر صرف نظر کرتے ہوئے دوستی کی لاج رکھی جاتی ہے،دوست کی غیر موجودگی میں بھی دوست کے مفادات کا بھرم اور تحفظ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ ماضی ہے جو دو ریاستوں کے درمیان رہا ہے جب امریکیوں نے ایران میں شرمندہ ہونے کے بعد سعودیوں سے دوستی کی اور اس سارے عرصے کے دوران سعودیوں نے امریکی دوستی کو بھرپور طریقے سے نبھایا ،اپنے ان تمام خصائل کے ساتھ جو اس خطہ زمین کا خاصہ ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ امریکہ کی نظر میں تمام تعلقات کاروباری سے زیادہ کچھ نہیں ۔ کہیں وہ دوستی کے نام پر پیسے دے کر اپنا کام سیدھا کرتا ہے تو دوسری طرف اس کا اصول ہے کہ کسی کے کام آنا ہے تو اس کی پوری قیمت وصول کی جائے کہ یہی سکہ رائج الوقت ہے۔
دوستی کے حوالے سے دیکھا جائے تو امریکی رویہ مشرق وسطیٰ میں بی جمالو جیسا ہے جو ہر طرف لگائی بجھائی کرکے فقط اپنا الو سیدھا کرنے میں یقین رکھتی ہے،امریکہ کسی بھی ریاست کے ساتھ نہ مستقل دوستی کا دم بھرتاہے اور نہ ہی کسی کے ساتھ مستقل دشمنی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکی جانتے ہیں کہ مشرقی لوگ کس طرح تعلقات (دوستانہ ہوںیا دشمنی پر مبنی) نبھاتے ہیں اور اس فطرت کا فائدہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے سے اٹھا رہا ہے۔ ایران ،عراق جنگ ہو یا سعودی ایران سرد تعلقات ،امریکہ ہر دو طرح کے حالات میں اپنے مفادات کشید کر رہا ہے۔
ایسی ہی صورت اس دورے سے قبل دیکھنے کو ملی جب یہ قوی امید تھی کہ امریکہ، ایران پر پابندیاں لگا کر میزبان سعودی عرب کی شکایات کا ازالہ کرے گا مگر امریکہ نے بجائے ایسا کوئی عمل کرنے کے وہ راہ ڈھونڈی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفادات سمیٹے جائیں،اس مقصد کے لئے معاملات جیسے ہیں ویسے ہی رکھنا مناسب تھا لہذا اسی پر عمل کرتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کئے گئے اور نتیجہ بھی برا نہیں نکلا کہ سعودی عرب نے امریکہ سے فوری طور پر 110بلین ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط کئے اور شنید ہے کہ دفاعی معاہدوں کو بتدریج 380بلین ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ اس کے بدلے میں امریکہ سعودی دفاع کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی کرے گا۔ سعودی امریکی تعلقات میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سعودی حکومت نے دفاعی معاہدوں کے ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا سمجھوتہ بھی کیا ہے،جس سے ہیلی کاپٹرکی تیاری کے ساتھ ساتھ ان کی مرمت مقامی اور جلد ہوا کرے جبکہ اس سے قبل ہیلی کاپٹرکی مرمت امریکی کمپنیوں میں ہوا کرتی تھی ،جس سے نہ صرف ہیلی کاپٹروں کو لانے ،لیجانے پر زیادہ خرچ آتا تھا بلکہ ریاست اس عرصے میں ویسے ہی اپنے ہیلی کاپٹروں سے محروم رہتی تھی۔علاوہ ازیں سعودی نوجوانوں کے لئے بھی موقع میسر ہو گا کہ وہ اپنے ہی ملک میں رہ کر جدید ٹیکنالوجی سیکھ سکتے ہیںاور ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں دیگر مسائل پر بھی قابو پانا ازحد ضروری ہے کہ بغیر ان معاملات کو درست کئے ترقی کی شاہراہ پر چلا بھی نہیں جا سکتا۔ اگر بغور دیکھیں تو اس وقت امریکہ براہ راست کسی بھی جنگ کا حصہ نہیں بلکہ وہ جن جنگوں میں بھی شریک ہے اس کا خرچ براہ راست ریاست پر نہیں ہے اور امریکہ ان جنگوں کے اخراجات دیگر ممالک سے وصول کر رہا ہے۔مسلم دنیا کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح وہ براہ راست یا بالواسطہ جنگوں سے خود کو الگ کرے،کس طرح اختلافات کی خلیج کو سمیٹ کر ترقی کی طرف گامزن ہوکہ یہ بات تو طے ہے کہ بغیر اختلافات ختم کئے یہ ممکن نہیں کہ مسلم دنیا اپنی بھر پور توجہ اور وسائل تحقیق و ترقی کی طرف مبذول کروا سکے۔ موجودہ حالات میں جب دنیا بھر کی ریاستیں اپنی اپنی بقا ء کی جنگ میں مصروف ہیں،نائب ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے سعودی عرب کے لئے بہترین حصول کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ یہی حقیقت ہے کہ عالمی منڈی میں اس وقت صرف ایک ہی ریاست کی اجارہ داری ہے اور ہر ریاست اس کی خریدار اوراجارہ دار اپنی منہ مانگی قیمت ہی وصول کیا کرتے ہیں ۔

شیئر: