Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر پھانسی کے بعد مزیدار کھانا‘، بنگلہ دیش کا قیدی جو آؤبھگت کے لیے جلاد بنا

شاہ جہان بویا کے پاس وہ رسی اب بھی موجود ہے جس سے دہائیوں تک پھانسیاں دی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)
جب شاہ جہان بویا پہلی بار جیل گئے تو ان پر ایک قتل کا الزام تھا، کئی دہائی بعد جب وہ رہا ہوئے تو وہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے ایک ایسے جلاد بن چکے تھے جن کے ہاتھوں درجنوں لوگ دنیا سے گئے۔
ہر پھانسی کے بعد گائے اور مرغی کے گوشت کے علاوہ پُلاؤ بطور انعام دیا جاتا رہا جبکہ ہر بار ان کی 42 سالہ مجموعی قید کے دورانیے میں بھی رعایت دی جاتی رہی۔
یہ سلسلہ تب تک چلا جب تک ان کی سزا پوری نہیں ہو گئی اور ایک روز پھر انہیں رہا کر دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رہائی کے بعد شاہ جہان بویا کے ساتھ بات چیت کی اور اس کی رپورٹ جاری کی ہے۔
70 برس کی عمر میں بھی مضبوط جسم کے مالک اور گھنی مونچھیں رکھنے والے شاہ جہان بویا نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ دعوت کا لطف اٹھاتے ہیں۔‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں سزائے موت دینے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جو پھانسی پر لٹکا کر دی جاتی ہے۔
مارکسسٹ انقلاب کے بارے میں کئی کتابیں پڑھنے اور بھرپور علم رکھنے والے شاہ جہان بویا 1970 میں اس باغی تنظیم کا حصہ بنے جس کا خیال تھا کہ حکومت پڑوسی ملک انڈیا کی کٹھ پتلی ہے اور اس کو گرا دینا چاہیے۔
ان کو 1979 میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ٹرک ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 42 سال کی سزا سنائی گئی۔
12 برس تک چلنے والے ٹرائل کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جیل میں جلاد کا کام کرنے والوں کو فرسٹ کلاس ملتی ہے اور جب انہوں نے ایک قیدی جو جلاد کی خدمات بھی انجام دیتا تھا، کو دیکھا کہ چار دوسرے قیدی اس کا مساج کر رہے تھے تو بویا نے اپنے آپ سے کہا کہ ’جلاد تو بہت طاقتور شخصیت ہوتا ہے، کیوں نہ یہی کام شروع کر دیا جائے۔‘

’پھانسی کی اطلاع ملتے ہی تیاری شروع کر دیتا تھا‘ (فوٹو: پکسابے)

اس سے اگلے روز ہی بطور جلاد کام کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔
جیل حکام نے پیشکش قبول کر لی اور کچھ عرصہ بعد ان کو اپنی پہلی ڈیوٹی نبھانے کا ٹاسک سونپا گیا۔
وہ 80 کی دہائی تھی جب بطور جلاد کے نائب انہوں نے پہلے شخص کو پھانسی پر چڑھایا۔
انہوں نے اپنی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے کچھ روز بعد ایک اور شخص کو پھانسی دی جا رہی تھی تو اس نے سکون سے کلمہ پڑھا۔
’اس نے صرف کلمہ پڑھا اور رویا بھی نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب ایک بار بنگلہ دیش کے صدر کی جانب سے کسی قیدی کی رحم کی اپیل مسترد ہو جائے تو پھر اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔
’جلاد کو کچھ روز قبل اطلاع دی جاتی ہے، جس کے بعد وہ اپنی تیاری شروع کر دیتا ہے اور رسی کے علاوہ پھانسی کے تختے کو ہٹانے کے لیے استعمال ہونے والے لیور کو کئی بار کھینچ کر جائزہ بھی لیتا ہے اور اگر کوئی کمی ہو تو اس کو بھی ٹھیک کروایا جاتا ہے۔
پھانسی دیے جانے کا حتمی فیصلہ ہو جانے کے بعد قیدی کے گھروالوں کو آخری ملاقات کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔

شاہ جہان بویا کو ہر پھانسی کے بعد خصوصی طور پر مزیدار کھانا مہیا کیا جاتا (فائل فوٹو: سکرین شاٹ)

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل قیدی کو غسل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس کو سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔
’اسی طرح موت سے قبل اپنی پسند کا کھانا کھانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔‘
پھانسی سے قبل ایک مسلمان مولوی قیدی کے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرواتا ہے۔
اس کے بعد شاہ جہان تھوڑا وقفہ کیا اور پھر کہا ’ہم قیدی کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہیں اور سر پر کالے رنگ کے کپڑے کا تھیلا چڑھا دیتے ہیں۔‘
’اس کے بعد گلے میں پھندہ ڈالا جاتا ہے اور کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔‘
 اس کے بعد آخری مرحلے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی وارڈن ہاتھ میں پکڑے رومال کو نیچے کرتا ہے میں لیور کھینچ دیتا ہوں۔‘
یہ باتیں بتاتے ہوئے انہوں نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ انہیں اس پر کوئی افسوس بھی ہوتا ہے۔
جب کوئی انسان موت کے بالکل سامنے ہوتا ہے، ایسے وقت میں وہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے فقط اتنا کہ ’مجھے صرف یہ علم ہوتا ہے کہ وہ دنیا چھوڑنے جا رہا ہے۔‘
جیل حکام کی جانب سے مجموعی طور شاہ جہان بویا سے 26 پھانسیاں لگوائی گئیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ 60 سزاؤں کا حصہ رہے۔

شاہ جہان بویا کے مطابق ’سزائے موت پر رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد قیدی کو کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے ہاتھوں موت پانے والوں میں وہ فوجی افسران بھی شامل تھے جنہوں نے 1975 میں بغاوت کی تھی اور بنگلہ دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کو قتل کیا تھا، جو موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے والد تھے۔
2007 میں انہوں نے صدیق اسلام کے علاوہ الیاس بنگلہ بھائی کو بھی پھانسی دی جن کا تعلق کالعدم جماعت المجاہدین سے تھا اور ملک گیر بم دھماکوں میں ملوث تھے۔
شاہ جہان بویا نے حزب اختلاف کے چھ رہنماؤں کو بھی پھانسی پر چڑھایا، جن میں سے پانچ کا تعلق ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت سے تھا اور ان کو 1971 کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کا انصاف کا نظام خامیوں سے بھرپور ہے مگر شاہ جہان بویا ایسی تنقید کو مسترد کرتے ہیں تاہم ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’مجھے یقین تھا کہ ان میں سے کم سے کم تین بے گناہ تھے۔‘
ایک کیس میں ریپ اور قتل کے ملزموں نے یہ تسلیم کیا کہ جس شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا اسے انہوں نے ہی اس کے لیے تیار کیا تھا۔
بویا کا کہنا تھا کہ پھانسی سے قبل انہوں نے صرف اتنی درخواست کی تھی کہ میری ماں کو بتا دینا کہ میں نے یہ جرم نہیں کیا تھا۔
اس وقت ان کے چہرے پر احساس جرم یا غم کے کوئی آثار نہیں تھے۔

شاہ جہان قتل کے الزام میں گرفتار کیے گئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر اس کے بارے میں دکھ محسوس بھی کر لیں تو کیا آپ اس کو زندہ رکھ پائیں گے؟ اگر میں پھانسی نہیں دوں گا تو کوئی یہ کام انجام دے دے گا۔‘
رہا ہونے اور جلاد کے کام سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد شاہ جہان بویا ڈھاکہ کے مضافاتی علاقے میں ایک کرائے کے کمرے میں رہتے ہیں۔
وہ بڑے فخر سے وہاں جانے والوں کو رسی کا وہ ٹکڑا دکھاتے ہیں جس سے دہائیوں تک پھانسیاں لگائی گئیں۔
’لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بہت طاقت ور رسی ہے اور کچھ لوگ اس کے دھاگے کو تعویز کے طور پر یا اپنی کلائیوں پر باندھتے ہیں۔‘
 اپنی قید کے دوران وہ کچھ باتوں کی عادت قطعاً نہ ڈال سکے۔ وہ اکیلے اور اندھیرے میں نہیں سو سکتے تھے اور ساری رات لائٹس آن رکھتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم قیدی آپس میں گپ شپ لگاتے، میں خود کو اکیلا محسوس نہیں کرتا تھا، اب میں نسبتاً کم روشنی میں سوتا ہوں اور اندھیرے کا عادی ہونے لگا ہوں۔‘
مارکسزم سے متاثر رہنے والے شاہ بویا اب ایک دیندار مسلمان ہیں اور مکہ دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ’میری صرف یہ آرزو ہے کہ مرنے سے قبل عمرہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘

شیئر: