پاکستان میں گاڑیوں کی پیداوار میں کمی، وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان میں گاڑیوں کی پیداوار میں کمی، وجوہات کیا ہیں؟
جمعرات 23 نومبر 2023 5:45
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
دستاویزات کے مطابق ’تین سال کے دوران گاڑیوں کی مجموعی پیداوار میں 46.07 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی معاشی مشکلات نے مختلف شعبوں کو متاثر کیا ہے اور اسی طرح گاڑیوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ ماہرین حکومتی پالیسیوں اور بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری کو آٹوموبائل صنعت میں آنے والی اس کمی کی وجہ سمجھتے ہیں۔
گاڑیوں کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے اور سپیئر پارٹس کی درآمد پر قدغن کے باعث اس صنعت کو بھاری نقصان ہوا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق مالی سال 2020-2021 کے دوران ملک میں گاڑیوں کی مجموعی پیدوار 28 لاکھ 59 ہزار 552 تھی جن میں کاروں کی تعداد ایک لاکھ 53 ہزار 462، جیپوں اور ایس یو ویز کی تعداد 28 ہزار 927 تھی۔
اُردو نیوز کو موصول ہونے والی سرکاری دستاویزات کے مطابق مالی سال 2021-2020 سے مالی سال 2023-2022 تک گاڑیوں کی مجموعی پیدوار میں 46.07 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
’اس عرصے کے دوران ملک میں مینوفیکچر کی جانے والی کمرشل گاڑیوں کی تعداد 35 ہزار 922 اور ٹرکوں کی تعداد 5 ہزار 346 رہی۔‘
پاکستان میں مالی سال 2021-2020 کے دوران 631 بسیں اور 50 ہزار 700 ٹریکٹر مارکیٹ میں آئے۔ سب سے زیادہ پیداوار موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی رہی جن کی تعداد 25 لاکھ 84 ہزار 574 بنتی ہے۔
مالی سال 2022-2021 کے دوران پاکستان میں گاڑیوں کی مجموعی پیدوار 26 لاکھ 62 ہزار 114 رہی جن میں کاروں کی تعداد 2 لاکھ 35 ہزار 637 جبکہ جیپوں کی تعداد 36 ہزار 876 تھی۔
اس عرصے کے دوران ملک میں لوکل کمرشل گاڑیاں 50 ہزار 831، ٹرک 7 ہزار 129 اور 728 نئی بسیں مارکیٹ میں آئیں۔
اس دوران ٹریکٹرز کی پیداوار 58 ہزار 922 رہی جبکہ 22 لاکھ 71 ہزار 991 موٹر سائیکلیں اور رکشے مارکیٹ میں آئے۔
اب اگر مالی سال 2023-2022 کی بات کی جائے تو اس عرصے کے دوران گاڑیوں کی مجموعی پیدوار 14 لاکھ 35 ہزار 668 رہی جن میں 96 ہزار 834 کاریں اور 27 ہزار 788 جیپیں اور ایس یو ویز شامل تھیں۔
اس عرصے کے دوران ملک میں 21 ہزار 504 مقامی کمرشل گاڑیاں اور 3 ہزار 849 ٹرک مینوفیکچر کیے گئے۔
مذکورہ عرصے کے دوران 712 بسیں اور 29 ہزار 349 ٹریکٹرز مارکیٹ میں آئے جبکہ سب سے زیادہ پیداوار 12 لاکھ 55 ہزار 632 موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی رہی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ’تین سال کے دوران گاڑیوں کی مجموعی پیداوار میں 46.07 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔‘
’ملک میں کاروں کی پیداوار 58.91 فیصد، جیپوں اور ایس یو ویز کے مینوفیکچر کیے جانے کی شرح 24.64 فیصد کم ہوئی۔‘
مقامی کمرشل گاڑیوں کے مینوفیکچر کیے جانے کی شرح میں 57.70 فیصد، ٹرکوں کی پیداوار میں 46.01 فیصد اور بسوں کی پیدوار میں 2.20 فیصد کمی ہوئی۔
اسی عرصے میں موٹرسائیکلوں اور رکشوں کی پیداوار میں بھی 46.73 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
گاڑیوں کی درآمد میں بھی نمایاں کمی
اُردو نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان میں مالی سال 2023-2022 کے دوران 12 ارب 43 کروڑ 33 لاکھ 25 ہزار 811 روپے مالیت کی استعمال شدہ گاڑیاں منگوائی گئیں۔
مالی سال 2022-2021 کے دوران 41 ارب 31 کروڑ 76 لاکھ 90 ہزار روپے مالیت کی 579 کی گاڑیاں امپورٹ ہوئی تھیں، یوں سالانہ بنیادوں پر 28 ارب روپے سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔
آٹوموبائل انڈسٹری سے وابستہ افراد حکومتی پالیسیوں اور بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری کو آٹوموبائل صنعت میں آنے والی اس کمی کی وجہ سمجھتے ہیں۔
آل پاکستان ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں شعیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان میں مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کے سپیئر پارٹس بھی بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’سپیئر پارٹس درآمد نہ کیے جانے اور انڈسٹری پر بے جا ٹیکسز نے گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا جس کے باعث یہ عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔‘
نئی گاڑی کی خریداری سے رجسٹریشن تک کتنا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے؟
آل پاکستان ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے سیکریٹری جنرل وسیم عباسی کے مطابق 1300 سی سی یا اس سے اوپر کی گاڑی کی خریداری پر 1 لاکھ 15 ہزار روپے تک مجموعی ٹیکس اور رجسٹریشن فیس دینا پڑتی ہے جو کہ 3 سال پہلے تک 30 سے 40 ہزار روپے تھی۔
حکومت کی آٹو موٹیو ڈویلپمنٹ پالیسی 2021-2016 اور آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی 2026-2021 کے تحت گاڑیوں کی صنعت کی ترقی کے لیے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کام کر رہا ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار کے ذیلی ادارے انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے جی ایم پالیسی، ایڈمن اور کوارڈینیشن عاصم نیاز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت مارکیٹ میں گاڑیوں کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کرتی۔‘
’گاڑیوں کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ پر منحصر ہوتا ہے۔ ملک میں گاڑیوں کی قیمت اور انڈسٹری کی موجودہ صورت حال کی وجوہات ایکسچینج ریٹ، عالمی معاشی صورت حال اور پاکستان کی مجموعی معاشی صورت حال سے جُڑی ہوئی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری تین بڑی کمپنیوں کے گرد گھومتی ہے۔ حکومت نے بڑی کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کرنے اور نئے کار مینوفیکچررز کو مارکیٹ میں لانے کے لیے آٹو موٹیو ڈویلپمنٹ پالیسی 2021-2016 لانچ کی۔‘
‘اس پالیسی کے باعٹ ہنڈائی، کیا، یونائیٹڈ موٹرز، ماسٹر کار سمیت دیگر نئی کمپنیاں مارکیٹ میں آئیں۔ حکومت نے اب آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی 2026-2021 میں بھی ان اقدامات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔