Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک جانے والوں کے لیے ای پروٹیکٹر، طریقہ کار کیا؟

رواں برس کے پہلے 10 ماہ میں سات لاکھ 23 ہزار سے زیادہ افراد بیرونِ ملک گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
مزمل اشرف کا سعودی عرب کا ویزا لگا تو انہیں یہ ہدایت کی گئی کہ وہ اس پر پروٹیکٹر لگوائیں جس کے لیے انہوں نے معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ اس مقصد کے لیے انہیں گجرات سے راولپنڈی جانا ہو گا۔ 
ان کے علم میں یہ بات آئی کہ راولپنڈی کے علاقے رحمان آباد میں واقع پروٹیکٹوریٹ دفتر سے ایک پیچیدہ اور طویل عمل سے گزر کر ہی پروٹیکٹر لگ سکتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اگر صبح نو بجے راولپنڈی پہنچیں گے تو وہ اپنا کام کروانے میں ناکام رہیں گے کیونکہ پروٹیکٹوریٹ دفتر کے باہر صبح سویرے ہی قطار لگنا شروع ہو جاتی ہے اور بعض اوقات دفتر کا وقت ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ قطار ختم نہیں ہوتی۔ 
مزمل اشرف نے اس لیے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک دن قبل ہی اپنے رشتے دار محمد ریاض کے پاس پہنچ جائیں گے جو سرکاری ملازمت کی وجہ سے ایک طویل عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا کیوںکہ اگلے روز پروٹیکوریٹ کے باہر طویل رَش تھا مگر وہ وقت پر فارغ ہو گئے۔
بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے 10 ماہ میں سات لاکھ 23 ہزار سے زیادہ افراد بیرونِ ملک گئے ہیں۔ ان افراد نے راولپنڈی سمیت ملک کے دیگر آٹھ علاقائی پروٹیکٹوریٹ دفاتر میں خود جا کر پروٹیکٹر لگوائے۔
روزانہ اوسطاً دو ہزار دو لوگ ان دفاتر کا رُخ کرتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے وسائل خرچ ہوتے ہیں بلکہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث انہیں مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
پورے ملک میں صرف آٹھ دفاتر ہونے کی وجہ سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کو طویل سفر بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ 
امیگریشن قوانین کے مطابق ورک ویزے پر جانے والے شہریوں کو پروٹیکٹوریٹ آف امیگرنٹس کے دفتر میں اپنے پاسپورٹ، ویزے اور ملازمت کے معاہدے کی اصل دستاویزات کے علاوہ ان کی فوٹو کاپیاں اور تصاویر لے کر جانا ہوتا ہے۔ یہاں انہیں پروٹیکٹر کی فیس کے علاوہ ویلفیئر فنڈ اور اوورسیز شناختی کارڈ کی سلپ کی فیس کے ساتھ ہی چالان کی رقم بھی جمع کروانا ہوتی ہے۔

پروٹیکٹر لگنے سے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو ہر طرح کا مكمل قانونی تحفظ فراہم كیا جاتا ہے. (فوٹو: روئٹرز)

اس تکلیف سے بچنے کے لیے جہاں بیرون ملک جانے والے افراد مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں وہیں پروٹیکٹوریٹ دفاتر کے آس پاس موجود ایجنٹ جعلی مہریں لگا کر شہریوں کو جعلی پروٹیکٹر لگا کر دیتے ہیں جس سے نہ صرف بیرون ملک جانے والے شہری کئی قانونی فوائد سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے وہ تمام لوگ جنھوں نے بیرون ملک سے براہ راست ایمپلائمنٹ ویزا حاصل کیا ہے وہ گھر بیٹھے آن لائن پروٹیکٹر حاصل کر سکتے ہیں۔ 

ای پروٹیکٹر حاصل کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ 

ای پروٹیکٹر حاصل کرنے کے لیے بیورو آف امیگریشن کی ویب سائٹ پر جا کر آپ اس لنک https://beoe.gov.pk/direct-emigrant-registration کے ذریعے رجسڑ ہو سکتے ہیں۔ اس فارم میں اپنے بارے میں ضروری معلومات کے ساتھ ساتھ آجر، تنخواہ اور ملازمت کے معاہدے کی تفصیلات درج کرنا ہوتی ہیں جس کے بعد ویزا، پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ملازمت کا معاہدہ، تمام فیسوں کی رسیدیں، کریکٹر سرٹیفکیٹ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں اَپ لوڈ کرنا ہوتا ہے۔ 
رجسٹریشن کے وقت آپ اپنے علاقائی پروٹیکٹوریٹ دفتر کا انتخاب کرتے ہیں جہاں آپ کی جانب سے بھجوائی گئی دستاویزات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور طے شدہ وقت کے اندر اندر ای میل پر ای پروٹیکٹر بھیج دیا جاتا ہے، جس کی تصدیق اس پر شائع بار کوڈ سے کی جا سکتی ہے۔ ایئرپورٹس پر یہ ای پروٹیکٹر اب سے قابل قبول ہو گا۔ 

پروٹیکٹر کے فوائد

پروٹیکٹر لگنے سے بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو ہر طرح کا مكمل قانونی تحفظ فراہم كیا جاتا ہے، جس ملک میں ملازمت ہو وہاں پاكستانی مشن سے مكمل معاونت كا استحقاق مل جاتا ہے جبکہ پاكستانی سفارت خانے كے كمیونٹی ویلفیئر اتاشی سے قانونی معاونت طلب كی جا سكتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں خاندان كو درپیش مسائل میں ایک حد تک كمی لائی جا سكتی ہے۔
اس کے علاوہ سٹیٹ لائف آف پاکستان کے ذریعے 10 لاکھ روپے پریمیئم تک کی لائف انشورنس بھی دی جاتی ہے۔
ویلفیئر فنڈ كی ادائیگی كے بعد اوورسیز پاكستانیز فاؤنڈیشن کی رکنیت مل جاتی ہے جس کے تحت بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات، ہوائی اڈوں پر اوورسیز پاكستانیز فاؤنڈیشن كے كاؤنٹرز پر تعینات عملے سے قانونی اور دیگر ضروری رہنمائی اور معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، جبکہ رہائشی سكیموں میں بھی پلاٹ لینے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اور صنعتی شعبے میں سرمایہ كاری بھی كی جا سكتی ہے۔ اوورسیز پاكستانی فاؤنڈیشن كسی حادثے/ سانحے كی صورت میں مالی مدد بھی فراہم كرتی ہے۔

شیئر: