Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہزاروں کاغذات نامزدگی مسترد: الیکشن ٹریبیونلز اپنا کام مکمل کر پائیں گے؟

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب سے نااہل کیے گئے تقریباً 15 سو امیدواروں کی اپیلوں کی سماعت کے لیے کُل نو ٹریبیونلز تشکیل دیے ہیں۔ (فائل فوٹو: لاہور ہائی کورٹ)
پاکستان میں انتخابی عمل میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے جبکہ ایسے امیدوار جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں، ان کے پاس اپیل دائر کرنے کے لیے تین دن کا وقت ہے۔
ایسے امیدوار یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں کہ اپیل دائر کرنے کے لیے ان کو ریٹرننگ افسران کی طرف سے تحریری فیصلے نہیں مل رہے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور ہائی کورٹ میں پیر کو ایک درخواست دائر کی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ریٹرننگ افسران کو حکم دیا جائے کہ وہ تحریری فیصلہ فوری جاری کریں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کے لیے 1024 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسران نے مسترد کیے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 521 کی تعداد پنجاب سے ہے۔
پنجاب کی صوبائی نشستوں سے 943 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں۔ پنجاب سے نااہل کیے گئے تقریباً 15 سو امیدواروں کی اپیلوں کی سماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے کُل نو ٹریبیونلز تشکیل دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے شیڈیول کے مطابق ان ٹربیونلز کے پاس اپیلوں کی سماعت کے لیے 10 جنوری تک کا وقت ہے۔ ہر ٹریبیونل کے پاس 150 کے قریب اپیلیں دائر ہوں گی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اسے سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہوئے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اپنی جگہ پر ہو گا کہ کیا ٹربیونل اپنا کام وقت پر کر پائیں گے؟
اس حوالے سے معروف قانون دان اور لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر انور کمال کہتے ہیں کہ ’ٹریبیونل کی کارروائی سرسری ہوتی ہے۔ جو اعتراض لگا کر ریٹرننگ افسران نے کاغذات نامزدگی مسترد کیے ہیں، ہائی کورٹ کا ٹریبیونل ان اعتراضات کو دیکھے گا۔ اگر امیدوار کا وکیل اعتراض دور کردے گا تو اس کے کاغذات منظور ہو جائیں گے۔‘

الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کے لیے 1024 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسران نے مسترد کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’کچھ ایسے بھی معاملات ہوں گے جن میں ٹریبیونل نوٹس بھی جاری کرے گا اور ریکارڈ منگوائے گا۔ میرا خیال ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ٹریبیونلز کو ان اپیلوں کی سماعت کے لیے کم وقت ملا ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔‘
ایڈووکیٹ اظہر صدیق جو خود بھی امیدوار ہیں، انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے کہ عدالت یک مشت ہی تمام امیدواروں کی نااہلی ختم کر دے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ سب ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہو رہا ہے۔ ایک دن رہ گیا ہے اپیلیں دائر کرنے کے لیے اور ریٹرننگ افسران تحریری فیصلے جاری نہیں کر رہے کہ کاغذات نامزدگی کیوں مسترد کیے ہیں۔‘
ایڈووکیٹ اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ ’میرا موقف ہے کہ عدالت مداخلت کرے اور 90 فیصد امیدواروں کے کاغذات بحال کرے جو غیرقانونی طور پر مسترد کیے گئے۔ جتنی بڑی تعداد میں کاغذات مسترد ہوئے ہیں ٹریبیونلز میں تو باری ہی نہیں آئے گی۔‘

ایڈووکیٹ اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ ’میرا موقف ہے کہ عدالت مداخلت کرے اور 90 فیصد امیدواروں کے کاغذات بحال کرے۔‘ (فائل فوٹو: یوٹیوب)

پنجاب میں الیکشن ٹریبیونلز کی تفصیلات

ہائی کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق جسٹس فیصل زمان خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کاغذات نامزدگی کی اپیلوں پر سماعت کریں گے۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال پرنسپل نشست پر بطور ٹربیونل اپیلیں نمٹائیں گے۔ ان کے پاس این 82 سے این اے 88 اور این اے 93 سے این اے 110 تک حلقوں کی اپیلیں سننے کا اختیار ہے۔
اسی طرح جسٹس رسال حسن سید پرنسپل نشست پر ہی حلقہ این اے 111 سے این اے 138 تک کی اپیلوں پر سماعت کریں گے۔
جسٹس راحیل کامران شیخ پرنسپل نشست پر این اے 62 سے این اے 81 تک کی اپیلیں نمٹائیں گے۔ جسٹس سلطان تنویر احمد بہاولپور بینچ میں بطور ٹریبیونل اپیلیں نمٹائیں گے۔ ان کے پاس حلقہ این اے 154 اور این اے 155 کے ساتھ ساتھ این اے 160 سے این اے 174 تک حلقوں کی اپیلیں سننے کا اختیار ہو گا۔ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ملتان بینچ میں بطور ٹربیونل اپیلیں نمٹائیں گے۔ ان کے پاس حلقہ این اے 139 سے این اے 153 تک اور این اے 156 سے این اے 159 تک کے حلقوں کی اپیلیں سننے کا اختیار ہوگا۔
ملتان میں ہی جسٹس علی ضیا باجوہ ٹریبیونل کے فرائض سرانجام دیں گے۔ حلقہ این اے 191، این اے 192 اور حلقہ این اے 175 سے این اے 189 تک کی اپیلوں کی سماعت ان کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس مرزا وقاص روف راولپنڈی بینچ میں بطور ٹریبیونل سماعت کریں گے۔ ان کے پاس این اے 49 سے این اے 57 تک کی اپیلیں دائر کی جا سکیں گی۔

شیئر: