Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر مگر، چونکہ چنا نچہ

پانامہ لیکس کے دفاع میں حکمران خاندان کا حق ہے کہ وہ تمام تر قانونی اقدامات کریں
* * * محمد مبشر انوار* * *
پانامہ لیکس سے شروع ہونے والی ہیجان خیزی اپنے انجام کو پہنچتی نظر آ رہی ہے گو کہ اس انجا م کی طرف بڑھتے ہوئے طرفین کے بہت سے تاریک گوشے بے نقاب ہوئے تو اخلاقیات کے درس دینے والوں کا اپنا اخلاق بھی لچر،پھکر پن کے ساتھ ساتھ دھونس ،جبر اور دھمکیوں کے ساتھ آشکار ہوتاجا رہا ہے۔ اس سب کے باوجود ابھی تک حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا منطقی انجام کیا ہو گا کہ اس دوران سیکورٹی کے حوالے سے ’’نیوز لیک‘‘ کا انجام بظاہر منطقی نظر نہیں آیا لیکن کیا وہ فقط ڈھیل تھی یا مقتدر حلقے کسی بھی صورت سیاسی قیادت کو ’’شہادت‘‘ کے منصب پر فائز کرنے کے لئے تیار نہ تھے ؟ انہیں معلوم ہے کہ ہماری اندھی مقلد قوم کی ذہنی بالیدگی و پختگی کس حد تک ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے قوم کو مقتدر حلقوں سے کس قدر بد ظن کر رکھا ہے کہ غلط وقت پر صحیح اقدام بھی سیاسی اشرافیہ کے تن مردہ میں پھر سے روح پھونک سکتا ہے لہذا انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ کسی بھی طرح سیاسی قیادت کو ’’سیاسی شہادت‘‘ کے منصب سے سرفراز نہ کیا جائے بلکہ اس وقت کا انتظار کیا جائے کہ کب عالمی سطح کے کرپشن اسکینڈل کا منطقی نتیجہ سامنے آئے ،سیاسی حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے ،عوام کو جوابدہ ہو۔دنیا بھر میں جس حکمران کا نام بھی پانامہ سکینڈل میں آیا،اس کے لئے اپنی حیثیت برقرار رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو گیا اور جلد یا بدیر اسے عوام نے اقتدار سے الگ کر دیا کہ عوام حقیقتاً ایسے بے شرموں کو اپنا حکمران نہیں دیکھنا چاہتی لیکن آفرین ہے ہماری حکومت اور اشرافیہ پر جسے اس ’’عزت افزائی‘‘ کا احساس تک نہیں کہ وہ صرف اپنی عزت ہی نہیں کما رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں ریاست پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
موجودہ اشرافیہ سے پہلے تک اقوام عالم میں پاکستان کی حیثیت تھی،عالمی سطح کی کسی بھی تقریب میں پاکستان کو موقع ملتا رہا کہ وہ کسی بھی مجوزہ معاملے پر اپنا نقطہ نظر بیان کر سکے۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ قبل ازوقت پے درپے اقدامات کے باوجودحکمران خاندان نہ صرف یہ کہ بری طرح پھنس چکا ہے بلکہ مختلف مواقع پر اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کے جال میں الجھا ہواہے۔حکمران وقت کا بیان اپنے اثاثہ جات کے متعلق کچھ ہے توجانشین اس بارے میں کچھ اور ہی کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔خاتون اول تو خیر ان سب جھمیلوں سے دور ہیں مگر شنید ہے کہ وہ شوہر نامدار کو یہی سمجھاتی ہیں کہ اب اس خارزار کو خیر باد کہہ کر آف شور کی بسائی ہوئی نئی دنیا میں قیام کرتے ہیں توبیٹی کا کہنا ہے کہ ابا حضور کی سیاسی وراثت کو کسی طور بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا سکتا لہذا آخر دم تک لڑیں گے اور کیا ہی ممکن ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی محتسب کا دل پگھل جائے اور ماضی کے آزمودہ طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ ہی کام کر جائے یا اگر کوئی پرانا حربہ کارگر نہیں ہوتا تو ترکش میںموجود تیر یکے بعد دیگرے چھوڑتے ہی چلے جائیں ،کیا خبر کوئی کارتوس کام کر ہی جائے۔
اس ضمن میں میڈیا سیل کے علاوہ جن شہسواروں کو میدان میں اتار رکھا ہے، ان میں سرفہرست طلال چوہدری،مریم اورنگزیب ،دانیال عزیز،عابد شیر علی ،طارق فضل چوہدری، خواجہ صاحبان (بوقت اشد ضرورت)یہ صاحبان مسلسل اور مستقلاً حکمران کے کارناموں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسرے محاذ پر حکمران کی بھر پور کوشش ہے کہ کسی طرح مقتدر حلقوں کو زچ کیا جائے اور اس مقصد کی خاطر وہ پہلے ہی مشاہداللہ خان،پرویز رشیداور اب حال ہی میں نہال ہاشمی کو بھی قربان کر چکے ہیں مگر افسوس کہ پانامہ لیکس بری طرح چمٹی ہوئی ہے۔ پانامہ لیکس کے دفاع میں حکمران خاندان کا حق ہے کہ وہ تمام تر قانونی اقدامات کریں لیکن راست گوئی ،پارسائی اور امین ہونے کے جو بلند و بانگ دعوے خاندان بالخصوص ماضی قریب میں اور بالعموم اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں کرتا رہا ہے ،حقائق کلیتاً اس کے برعکس ثابت ہورہے ہیںاور دفاع میں کھڑے پیادے مسلسل عمران خان کو کوسنے دیتے نظر آتے ہیں ۔
قانونی طورپر جو شواہد عدالت اور جے آئی ٹی کو مطلوب ہیں،ان کے متعلق انتہائی بودے اور غیر حقیقی بیانات دئیے جا رہے ہیںجبکہ وہ دستاویزات جن کی موجودگی کا اعلان بذات خود حکمران نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران کیا تھا،جانشین نے بڑے طمطراق کے ساتھ 6انٹرویوز میں دیا تھا،کہیں نظر نہیں آئے۔ نہ جانے حکومتی ارکان کس طرح یہ فرما رہے ہیں کہ حکمران کی3 نسلوں نے حساب دے دیا ہے،اب دوسروں کی باری ہے کہ وہ اپنا حساب دیں،میں قطعی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عدالتیں اور قانون کے کٹہرے میں آپ کو اپنا حساب دینا ہے نہ کہ ججزکے سامنے یہ رونا کہ آپ میرے مخالف کا کیس کیوں نہیں سنتے ،آپ اس کو سزا کیوں نہیں دیتے،آپ صرف مجھے کیوں کرپٹ کہتے ہو،صرف مجھے کیوں نا اہل قرار دیتے ہو؟یہ سب دلائل تو بچپن میں ضدی بچوں کے ہوتے تھے جو کسی بھی صورت نہ خود کو ٹھیک کرتے اور نہ ہی کسی کو ٹھیک سے چلنے دیتے اور بالآخر سب بچے گھروں میں بند ہو جاتے۔
وقت کے ساتھ ساتھ بچے بڑے ہوجاتے اور بچپن کی اس عادت سے خود ہی محظوظ بھی ہوتے مگر کوئی نہ کوئی ایک دانہ بچہ اپنی ہٹ دھرمی اور ضدی طبیعت سے چھٹکارا حاصل نہ کر پاتااور کبھی بھی سنجیدہ طرز عمل کا اظہار نہ کر پاتا۔ اس وقت حکمران خاندان کی حالت بھی بعینہ ویسی ہے کہ وہ بجائے اپنے اثاثہ جات کے شواہد فراہم کرنے،ایک طرف دوسروں کے غلط کارناموں کی تشہیر کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں مصروف ہیںتو دوسری طرف سرکاری اہلکاروں کو دھونس ،دھمکیوں کے ذریعے ڈرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ کسی بھی طرح سے فیصلہ اپنے حق میں کروا سکیں۔حکمران کو بارہا یہ باور کروایا جا چکا ہے کہ حضور یہ ماضی نہیں کہ جب آپ کا دل چاہا ،آپ آرمی چیف کو گھر بھیج دیں،جب دل چاہاججز سے من چاہے فیصلے حاصل کر لیں وگرنہ عدالت عظمی پر گلو بٹوں کا دھاوا بول کر ججز کو ہراساں کر دیں لیکن حکمران ہیں کہ انہیں بدلے ہوئے حالات کی سمجھ ہی نہیں آ رہی اور مسلسل محاذ آرائی پر کاربند ہیں کہ ان کے نزدیک راستہ یہی سے اور اسی طرح نکلے گا۔ نئے حالات میں یہ ممکن نہیں رہا کہ چانکیہ طرز سیاست پر کسی طرح بھی ریاستی اداروں کو ڈرا دھمکا کر یا اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کر کے کوئی چور راستہ نکال لیا جائے لہذا بہتر تو یہی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے مستند شواہددے کر گلو خلاصی کروائی جائے یا تسلیم کیا جائے کہ واقعی بیرون ملک عوام کی لوٹی ہوئی دولت ہی حکمران خاندان کے تصرف میں ہے،دوسری صورت میں اگر مگر،چونکہ چنانچہ کرتے کرتے حکومت 5 سال پورے کر ہی لے گی ۔

شیئر: