Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’الشداد‘ جزیرہ نما عرب کی قدیم ترین دستکاریوں میں سے ایک

الشداد کو اونٹوں کی سواری اور صحراؤں میں سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا (فوٹو: ایس پی اے)
’الشداد‘ جزیرہ نما عرب میں قدیم ترین دستکاریوں میں سے ایک ہے جس کی بدوؤں کی زندگی میں اہمیت ہے۔
خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق اسے اونٹوں کی سواری اور صحراؤں میں سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور یہ ابتدائی اقوام کے صحرا کے سخت ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت، ورثے اور ذہانت کی عکاسی کرتا ہے۔
’الشداد‘ خم دار لکڑی سے بنایا جاتا ہے، اونٹ کی پیٹھ کے آگے اور پچھلے حصے پر لگایا جاتا ہے۔ اس کے درمیان ایک گدا رکھا جاتا ہے جو اسے سہارا دیتا ہے تاکہ طویل سفر کے دوران سواری آرام دہ اور متوازن رہے۔
یہ خانہ بدوشوں کے سفر، تجارت اور سامان یا مسافروں کو صحراؤں اور دشوار گزار راستوں پر لے جانے میں ایک اہم چیز کی حیثیت رکھتا تھا۔
اس کا ڈیزائن اُس کے استعمال کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ ایک قسم سواری کے لیے مخصوص ہے جبکہ دوسری بھاری سامان لے جانے کے لیے بنائی جاتی ہے۔
یہ انسان اور اونٹ کے درمیان گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ اونٹ صحرا کی زندگی کی ایک لازمی علامت ہے۔
جدید ذرائع آمدورفت کی ترقی کے باوجود ’الشداد‘ آج بھی ثقافتی اور ورثے کی نمائشوں میں شامل ہوتا ہے۔
اکثر مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہوں اور روایتی بازاروں میں سجاوٹی چیز کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ یہ ہمارے آباؤ اجداد سے جُڑے رشتے اور اصل روایات کی نشانی ہے۔
یہ دستکاری پر مبنی ایجاد قدیم لوگوں کی سمجھداری اور مہارت ظاہر کرتی ہے جنہوں نے مقامی وسائل استعمال کرتے ہوئے ایسے مفید اوزار بنائے جو پائیداری، جدت اور ثقافت کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کی ثقافت میں اونٹ برداشت، طاقت اور حالات کے مطابق ڈھل جانے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
آج بھی ’الشداد‘ ایک منفرد ورثے کی علامت کے طور پر موجود ہے یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی روایات اور علامات کو بچانا چاہیے اور ثقافتی فورمز میں اہمیت دینی چاہیے۔ یہ خود انحصاری اور فطرت کے ساتھ رہنے کی اہمیت سکھاتا ہے۔

 

شیئر: