Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا بھی نیکی

سب سے عمدہ وبہتر اور نہایت بابرکت گھروہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو
* * * مولانا نثاراحمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن* * * *
ہمارے دین اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ سخت سے سخت اور پتھر دلوں کو بھی نرم کرنے والی چیز غریبوں کو کھانا کھلانا، بے کسوں کی مدد کرنا، پھٹے پرانے کپڑے والوں کو کپڑا مہیا کرنا اور یتیموں کے سر پر پیار ومحبت اور شفقت ورحمت کا ہاتھ پھیرنا ہے، انسان کا دل خواہ کتنا ہی سخت اور پتھر کیوں نہ ہو اگر وہ یتیم اوراس کی محتاجی ، فقرو فاقہ اور بے سہارگی کو یاد کرلے اور ذہن میں اسکے آجائے کہ اسے کتنی شفقت ومحبت اور پیار وغمگساری کی ضرورت ہے تو لازمی طور پر اس کا دل پسیج جائے گااور اس کے اندر پدرانہ جذبہ بھڑک اٹھے گا، مسکینوں کو کھانا کھلانے اور یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرنے سے اسی طرح کے جذبات بھڑکتے اور انسان سخت دل ہونے کے باوجود یتیموں وناداروں اور بے سہارا معصوم بچوں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
رسول اکرم نے اپنے فرمودات کے ذریعہ بھی اور اپنے عمل سے بھی واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے اور صدقہ وخیرات کرنے کے کیا فضائل ہیں، اس کے ثمرات کتنے عظیم اور اس کے اثرات کتنے گہرے ودور رس ہوتے ہیں۔اللہ کے نبی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ وبڑھوتری ہوتی ہے، مال میں برکت حاصل ہوتی ہے۔ عفو ودرگزر ، چشم پوشی ، رکھ رکھائو، میل ملاپ ،باہمی الفت ومحبت اور تعاون ودستگیری نہایت بلند پایہ اخلاق ، اونچے اوصاف اورقابل رشک خصلت اور حسن عمل کا عالی مقام ہے جس کی بلندی تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کے دل کا دروازہ اسلام کی کنجی سے کھل چکا ہو اور اس کا نفس اسلام کے عظیم اخلاق سے ہم آہنگ ہوگیا ہو۔انہوں نے دنیا کی زیب وزینت ، چمک دمک اور جاہ ومال کی محبت پر اللہ کے نزدیک موجودہ اورذخیرہ کی ہوئی مغفرت ،اجر وثواب اور اعزاز واکرام کو ترجیح دیا ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے دل کی سختی وقساوت کی شکایت کی تو رسول اللہ نے اسے حکم دیا کہ یتیم کے سر پر شفت ومحبت کا ہاتھ پھیرے، غریبوں وناداروں کو کھانا کھلائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ہرگز نہیں بلکہ تم لوگ نہ تو یتیم کے ساتھ عزت کا سلوک کرتے ہو،اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کے ترغیب دیتے ہو۔‘‘(الفجر 18,17)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے سب سے عمدہ وبہتر اور نہایت بابرکت گھر اُسے قرار دیا ہے جس گھر کے اندر کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نہایت اچھا برتائو کیا جاتا ہو۔ اللہ کے نبی نے یہ بھی کہا ہے کہ نہایت بدتر وبدبخت انسان وہ ہے جو یتیموں کے ساتھ براسلوک کرے اور اس کے ساتھ نامناسب اور دل توڑنے والا برتائو کرے۔ اللہ کے نبی کی یہ اور اس طرح کی تعلیمات اسی لئے ہیں کہ یتیموں کے اولیاء ان کی کفالت کرنے والے اور مصیبت زدہ یتیموں پر مشتمل خاندان والے بد دل وشکستہ خاطر نہ ہوں اور ان کے وجود سے الجھن وپریشانی محسوس نہ کریںبلکہ لوگ اسے آپس میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کا ذریعہ بنائیںاوربڑھ چڑھ کر ان کی مدد کریں ،سہارا بننے اور خبر گیری کرنے میں لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔اللہ کے نبی نے یتیموں سے متعلق تعلیمات سے ہمیں بہرہ ور کرکے یہ بتایا ہے کہ یتیم سماج میں خیرو برکت اور سعادت وخوش بختی کا ذریعہ ہیں، وہ بوجھ نہیں۔ یہی نہیں بلکہ اللہ کے نبی نے یتیموں کی کفالت کرنے والوں کو یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ جنت میں رسول اللہ() کے ساتھ اور بالکل قریب ہوںگے۔
اللہ کے نبی نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں شہادت اور بیچ کی انگلی کی قربت کی طرح قریب اور ملے ہوںگے۔‘‘(سنن ابی دائود)۔ ہر مسلمان جانتا اور اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ نبی کریم یتیموں کے ساتھ بے پناہ ہمدردی کرتے، شفقت ومحبت کا برتائو کرتے، ان کی خبر گیری کرتے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید وتلقین کرتے رہتے تھے۔ سماج کے پچھڑے ہوئے طبقے اور کمزور لوگ بطور خاص نبی کریم کے پاس یتیموں کو لے کر آتے تھے تاکہ انہیں دیکھ کر رسول اللہ ان کے لئے بھی دعا کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کریں۔لوگ جانتے تھے کہ رسول اللہ یتیموں کو کتنا چاہتے اور ان سے کس قدر ہمدردی رکھتے ہیں تو گویا لوگ رسول اللہ کی ہمدردی حاصل کرنے اور انس ومحبت پانے کے لئے یتیموں کا سہارا لیتے تھے۔ یتیم وہی ہوتا ہے جو اپنی طفولت وبچپن میں اپنے والدین میں سے کسی ایک کو کھو چکا ہو۔اس کا بچپن اسے کھیل کود، الفت ومحبت اور پیار ولگائو کے لئے مجبور کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کا کوئی ہمدرد ہو جو اسکے ساتھ پیار بھرا سلوک کرے، اس کی دلجوئی کرے ، ماں باپ اس کی اس خواہش اور فطری داعیے کو پورا کرتے ہیں ،مگر باپ جو اس کا سہارا تھا، اس کی کفالت کرتا اس کی دلجوئی کرتا اور اس کے لاڈ پیار کو سہتا اور اس کی خواہش پوری کرنے میں اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا تھا۔
اب جبکہ اس کے سر سے اس کا سایہ اٹھ چکا ہے ، وہ اس پیارو محبت اورشفقت ورحمت کے لئے ترستا رہتا ہے اور جب کوئی شخص اسے باپ سا پیار دیتا ہے ، باپ کی طرح لطف وکرم کا معاملہ کرتا، محبت بھری نگاہ اس پر ڈالتا اور بڑے پیار وشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے تو بچہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور باپ کے کھونے کا غم ہلکا ہو جاتا ہے۔وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے باپ کے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اسے پوچھنے والا کوئی ہے جو اس کے ساتھ ہمدردی و دلجوئی کرسکتا، اس کے غم کو ہلکا کرسکتا، اس کے درد کو محسوس کرسکتا اور اس کے خواہشات وجذبات کو سمجھ سکتا ہے۔باپ کے ساتھ وہ کھیلتا کودتا ، گھومتا ، پھرتا، تفریح کرتا اور لاڈ وپیار کرتا تھا، من چاہی چیزیں طلب کرتا اور نہ ملنے پر ضد کرتا تھااور باپ اسکے سارے لاڈ وپیار کو شوق وجذبے کیساتھ سہتا تھا، مگر اچانک باپ کے وفات پا جانے کے بعد اس کی زندگی تبدیل ہوجاتی ہے، وہ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کررہا تھا، اور اچانک زمین پر گر جاتا ہے ، وہ اپنے سامنے دنیا کو تاریک پاتا ہے، وہ دوسرے بچوں کو جب اپنے ماں باپ کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے دیکھتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے، اسے اپنا ماضی یاد آنے لگتا اور پرانی باتیں اسے ستانے لگتی ہیں، مگر اس حال میں جب کوئی اسے غمگسار مل جاتا ہے جو باپ جیسی محبت تو نہیں دے سکتا مگر اس کا متبادل بن سکتا ہے تو اسی کو وہ بچہ اپنے لئے بڑا سہارا سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام نے یتیموں کی خبر گیری وہمدردی پر بڑی توجہ دلائی ہے اور اس کے لئے مختلف انداز وپیرہن میں ابھارا ہے۔جو یتیموں کی کفالت کرتے ہیں، ان کے لئے بھر پور اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنے پر جنت کا وعدہ کیا ہے۔
اسلامی سماج میں رسول اللہ نے ہر مسلمان کو یتیم کیلئے مشفق باپ قرار دیا ہے۔ا سلام نے ان ہدایات کے ذریعہ خیر کے دائرے کو وسیع کردیا ہے تاکہ ہر امیرو غریب اس میدان میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ بھلائی کے عمل سے مستفید ہوسکے۔اسلام نے ہر مفید و نافع عمل کو صدقہ قرار دیا ہے اس پر اجر وثواب رکھے ہیں۔ اس طرح مالدار انفاق کے ذریعہ اجر حاصل کرتا اور جو مالدار نہیں وہ بھلی باتوں ، میٹھی گفتگو اور ہمدردی کے جذبات کا اظہار کرکے اجر حاصل کرتا ہے۔ اللہ کے نبی نے ہر بھلی بات اورنیک کام کو صدقہ قرار دیا ہے۔ا س طرح اسلام نے سماج کی تعمیر اس کی خدمات اور اس کو بہتر بنانے میں ہر ایک کو شریک ہونے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ اس وقت جبکہ مسلمان روزے سے ہیں اور رمضان کے خیر وبرکت سے مستفید ہورہے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ اس کے برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کریں، عمل خیر میں حصہ لیں، اور تعاون ودستگیری میں بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹائیں، یتیموں کے آنسوں پوچھیں، ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر ان کے غم کو ہلکا کریں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سخاوت والا ہاتھ جو اللہ کے دیئے ہوئے مال ہی میں سے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے، ان کا یہ عمل اس میٹھے پانی کی طرح ہے جو مردار زمین کو سیراب کرنے کے بعد اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے ، پھر وہ زمین لہلہا اٹھتی ہے اور بیل بوٹے اور پودے ودرخت اگا کر انسانوں اور جانوروں کو اپنے ثمرات سے مستفید کرتی ہے۔آج مشرق ومغرب میں لاکھوں ہی نہیں ملینوں یتیم بچے ہماری مدد کے محتاج ہیں۔
مغرب کی خونریزی وسفاکی کے نتیجہ میں لاکھوں گھر ویران ہوچکے ہیں، ان کی بربریت کی وجہ سے لاکھوں معصوم بچے یتیم ہوچکے ، لاکھوں خواتین بیوا ہوچکی ہیں جن کاکوئی سہارا نہیں رہا ، وہ پناہ گزینی کی زندگی کھلے آسمان کے نیچے بسر کررہے ہیں۔ انہیں اپنے مسلمان بھائی کی مدد کا انتظار ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ان خاندانوں کے آنسو پوچھیں جنہوں نے اپنے سر پرست اور کفالت کرنے والے کو کھودیا ہے، ان کا جن پر انحصار تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ ہم ان کے دلوں کی کیفیت کا اندازہ کریں، ان کے غم واندوہ کا احساس کریں اور ان کے احوال کو اس نگاہ سے دیکھیں جیسے خود آپ اچانک کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہوںاور آپ کے ننھے ننھے بچے اور کھلتے ہوئے پھول اور جگر کے ٹکڑے یتیم اورآپ کی بیوی بیوہ ہوگئی ہو۔ اگر ہم نے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرلیا تو اس تاریکی میں ڈوبے ہوئے گھر کو منور کرنے ، چین وسکون سے محروم خاندان کو اطمینان وراحت بہم پہنچانے میں ہم کامیاب ہوجائیںگے اور اللہ ہمارے جان ومال میں اسکے بدلے برکت عطار فرمائے گا۔ہم ان کے دکھ درد کو اگر ہلکا کریںگے تو کل اللہ تعالیٰ ہمارے دکھ درد کو ہلکا کرے گا ، ہم ان کی تاریکی کو دورکریںگے تو اللہ تعالیٰ ہماری تاریکی کو دور کرے گا، ہم اگر مرجھائے ہوئے غم زدہ چہرے پر مسکراہٹ لائیںگے تو اللہ ہمیں خوشی ومسرت عطا کرے گا۔
سچا مسلمان وہ ہے جو امیر ہو یا غریب ، دولت مند ہو یا نادار کریم ہو اور داد ودہش اس کی شرست میں اور عادت بن گئی ہو، خواہ وہ معمولی اورقلیل ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام چاہتا ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں رحم وکرم ، شفقت ومحبت اور ہمدردی وغمگساری کا جذبہ ہو اور ہر کوئی اپنے سے زیادہ محتاج کے ساتھ ہمدردی کرے اور جس قدر ہوسکے اس کی مدد کرے اور اسکے مصائب وآلام کو دور کرے۔ دوسرے جن مصائب وآلام اور محرومی کا سامنا کررہے ہیں اور مشکلات وپریشانی کو جھیل رہے ہیں، اس کا احساس کریں اسی لئے کتاب اللہ کی متعدد آیتوں اور بے شمار احادیث میں مسلمانوں کو اس کی جانب ابھارا گیا ہے کہ ان کے پاس جو کچھ ہے ان میں سے عمدہ سے عمدہ مال یا اشیاء ضرورت مندوں میں خرچ کرے اور اپنی استطاعت کے بقدر اپنے بھائیوں کے مصائب وآلام کو دور کرنے میں ہاتھ بٹائے۔
اللہ تعالیٰ نے ان انفاق کرنے والوں کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے صدقہ کو بڑھاتا رہے گایہاں تک کہ وہ معمولی سی چیز بلند پہاڑ اور بڑے انبار کے مانند ہوجائے گا۔ صدقہ آپ پر نازل ہونے والی بلاؤں کو ٹالے گا، بری موت اور ناگہانی حوادث سے آپ کی حفاظت کرے گا اورگناہوں کے ذریعہ ہم جو اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتے اور اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں ، یہ غضب الٰہی کو ٹھنڈا کرے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان کھلے دل سے سماج کے سب سے پچھڑے ہوئے اِن یتیم وبے سہارا افراد کیلئے اپنا دست تعاون دراز کریں ، ہمدردی کے جذبات سے سرشار ہو کر یتیموں، بیکسوں کا سہارا بنیں اور سال میں صرف ایک دن نہیں بلکہ ہر روز اور ہر لمحہ انہیں یاد رکھیں اور ان کی تعلیمی ، معاشی اورہر میدان میں بہتری کی فکر کریں تاکہ ان یتیموں کو اپنے شفیق باپ کی عدم موجودگی کا احساس نہ ستائے، اور وہ اپنے مسلم سماج میں خود کو تنہا وبے سہارا محسوس نہ کریں۔

شیئر: