Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت مخالف تحریک میں مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی اکٹھے ہو سکتے ہیں؟

محمود جان کے مطابق مقتدر حلقوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مایوس ہونے کے بعد ہی مولانا فضل الرحمٰن نے تحریک انصاف کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف اور دیگر چھ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد نے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے نام سے تحریک شروع کر رکھی ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی جمیعت علمائے اسلام پاکستان فضل الرحمان نے بھی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔
اگرچہ دونوں تحریکوں کا مقصد بظاہر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے درمیان باہمی اختلافات اور سیاسی بیان بازیوں نے ابھی تک انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہونے دیا۔
اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان کئی ایک رابطے بھی ہوئے اور تحریک انصاف کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں بھی کی لیکن بوجوہ دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
سوموار کے روز قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان نے اپنے پہلے خطاب میں نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے آواز بلند کی بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کی اکثریت بنتی ہے تو اقتدار تحریک انصاف کے حوالے کر دیں۔
گزشتہ 15 سال میں تحریک انصاف کے حق میں دیا گیا یہ مولانا فضل الرحمان کا پہلا بیان ہے جسے تجزیہ نگار دونوں جماعتوں کے درمیان برف پگھلنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے جب مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ ابھی تک پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہمارے مذاکرات شروع نہیں ہوئے لیکن ہمیں مذاکرات سے انکار بھی نہیں ہے۔
اس حوالے سے اڈیالہ جیل میں موجود عمران خان نے بھی صحافیوں سے گفتگو میں بتایا تھا کہ انہوں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو مولانا فضل الرحمان سے بات کرنے کی اجازت دی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام کی تحریک ایک ساتھ ہو جائے گی۔
اگر جمیعت علمائے اسلام اور تحریک انصاف ہاتھ ملاتی ہیں اور دونوں کی الگ الگ جاری احتجاجی تحریک ایک ہو جاتی ہے تو یقینا یہ پاکستان میں ایک بڑی احتجاجی تحریک کا روپ دھار لے گی۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ جمیعت علماء اسلام اور تحریک انصاف ایک سٹیج پر مشترکہ احتجاجی تحریک چلا رہے ہوں گے۔

لحاظ علی کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف دور میں جے یو ائی اور پی ٹی ائی کو ایک سٹیج پر جمع کرنے کا کریڈٹ قاضی حسین احمد کو جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل پرویز مشرف دور میں امریکہ مخالف احتجاج اور عدلیہ بحالی تحریک کے دوران مولانا فضل الرحمان اور عمران خان سٹیج شیئر کر چکے ہیں۔
اس حوالے سے صحافی لحاظ علی کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف دور میں جے یو ائی اور پی ٹی ائی کو ایک سٹیج پر جمع کرنے کا کریڈٹ قاضی حسین احمد کو جاتا ہے۔
’اس وقت عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی شخصیت نے دونوں کو ایک جگہ پر جمع کیا۔‘
ان کے مطابق اس وقت عمران خان اکیلے تھے جبکہ ایم ایم اے کا ایک بڑا پلیٹ فارم تھا جسے عمران خان نے استعمال کرنا مناسب سمجھا تھا۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت بھی بیرون ملک تھی اور پاکستان میں اپوزیشن کی قیادت مولانا فضل الرحمان اور قاضی حسین امن کے ہاتھ میں تھی اس لیے عمران خان کو ان کے ساتھ ملنا ہی مناسب لگا تھا۔
2008  میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں جب جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بائیکاٹ کے اعلان پر ثابت قدم رہتے ہوئے انتخابات میں حصہ نہ لیا اور مولانا فضل الرحمان انتخابات میں حصہ لے کر میں پیپلز پارٹی کے اتحادی بن گئے تو تحریک انصاف اور جمیعت علماء اسلام کے درمیان اختلافات شروع ہوئے۔
یہ اختلافات اس وقت زور پکڑ گئے جب 2011 میں تحریک انصاف ایک بھرپور سیاسی جماعت کے طور پر ابھری اور مولانا فضل الرحمان کو خیبر پختونخوا میں اپنی جگہ محدود ہوتی ہوئی نظر آئی۔
پہلے 2013 اور پھر 2018 میں تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں جو کامیابی حاصل کی اس سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو شدید دھچکا پہنچا اور مولانا فضل الرحمان 1988 کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی نہ پہنچ سکے۔
تحریک انصاف کی اسی کامیابی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کھل کر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی جماعت کے کارکنان بھی مولانا فضل الرحمان کے خلاف جلسوں میں نامناسب نعرے بازی کرتے رہے۔

مولانا فضل الرحمان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ان کی سیاست کی لغت میں تمام فیصلے فعل حال کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صحافی لحاظ علی کا کہنا ہے کہ اس وقت عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں اور خیبر پختونخوا میں انہیں مولانا فضل الرحمان سے اب کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ ’اب ان کی جماعت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس قیادت کا فقدان ہے۔ جب کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت مقتدر حلقوں پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اب تحریک انصاف مولانا فضل الرحمان کی قیادت جب کہ فضل الرحمان تحریک انصاف کی مقبولیت کو اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ان کی سیاست کی لغت میں تمام فیصلے فعل حال کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اگر مولانا فضل الرحمان نو اگست 2023 کو اقتدار سے نکلنے کے بعد نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہو سکتے ہیں تو اس وقت وہ مقتدر حلقوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے عمران خان کے ساتھ اتحادی بھی بن سکتے ہیں۔
اس لیے غالب امکان ہے کہ مستقبل قریب میں حکومت مخالف احتجاجی تحریکیں ایک ہو جائیں۔‘
خیبر پختونخوا کے سیاسی حالات سے واقفیت رکھنے والے صحافی محمود جان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو اس بات کا دکھ ہے کہ انتخابات میں جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ان کا حصہ دیا گیا ہے اور جمیعت علماء اسلام کو ان کے جائز حصے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اس لیے وہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور مقتدر حلقوں سے برابر نالاں ہیں۔
’مولانا کا شکوہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ان کی جماعت اور ان کے اپنے صاحبزادے بھی شامل تھے اور یہ مشکل وقت تھا جب لوگوں نے حکمران اتحاد کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا اور پی ڈی ایم کے سربراہ بھی مولانا فضل الرحمان تھے۔ مشکل وقت میں ساتھ دینے کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ جس طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں حصہ ملا ہے انہیں بھی حصہ ملے گا لیکن صورتحال اس کے برعکس سامنے آئی۔ ‘
ان کے مطابق مقتدر حلقوں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مایوس ہونے کے بعد ہی مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کا آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’تاہم دونوں جماعتوں کے گزشتہ ایک دہائی کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی اتحاد ہو سکے گا یہ سو فیصد ممکن نہیں ہے کیونکہ دونوں کے درمیان نفرت کی حد تک مخالفت رہی ہے۔‘
محمود جان کا کہنا ہے کہ اگر یہ اتحاد ہوتا ہے جس کے کچھ امکانات تو ہیں تو خیبر پختونخوا کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نقصان مولانا کا ہی ہوگا کیونکہ انھوں نے تحریک انصاف کے خلاف بہت زیادہ مذہبی کارڈ کا استعمال کیا تھا۔

شیئر: