Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بندوق

پاکستانی کرکٹ ٹیم اس پرانی بندوق کی طرح ہے جو مالک نے چور پر تانی ہوئی ہے ۔ دونوں ہی ڈر رہے ہیں، چور بندوق کے چلنے سے اورمالک بندوق کے نہ چلنے سے !
* * * جاوید اقبال* * * *
82ء کی بات ہے ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ایک سابق کھلاڑی امتیاز احمد جو ہماری ائیرفورس میں اسکواڈرن لیڈر تھے مملکت میں مامور تھے ۔ میں نے ان کا سعودی ریڈیو کیلئے انٹرویو کیا ۔ موضوع پاکستانی کرکٹ تھا ۔ دورانِ گفتگو میں نے دیکھا کہ ان کے سامنے کے 2دانت آدھے ٹوٹے ہوئے تھے ۔ سوال کرنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بار اپنی ٹیم کے ہمراہ جالندھر ایک میچ کھیلنے گئے تھے ۔ مقابلے میں ہندوستانی کھلاڑی تھے ۔ امتیاز احمد وکٹ کیپر تھے ۔ بڑی مستعدی سے کھیل رہے تھے کہ ایک تیزی سے آتی گیند کی رفتار کا اندازہ کرنے میں غلطی ہو گئی ۔ وہ سیدھی ان کے ہونٹوں پر آن لگی ۔ خون کی دھار پھوٹی ۔ انہیں فوراً گرائونڈ سے باہر لے جایا گیا اور ابتدائی طبی امداد کے بعد اسپتال روانہ کر دیا گیا ۔ وہاں جا کر کھلا کہ گیند اپنے ہمراہ امتیاز احمد کے2دانتوں کے آدھے ٹکڑے بھی لے گئی تھی ۔ آپ یہ آدھے دانت نکلوا کر نئے پورے دانت لگوا لیتے !میں نے مشورہ دیا ۔ امتیاز احمد نے بڑے پُرجوش انداز میں جواب دیا: یہ میں نہیں کر سکتا تھا ۔
ان 2شکستہ دانتوں پر زبان پھیرتا ہوں تو اس حریف کا خیال آتا ہے جس نے زبردستی ہمارے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ یہ 2ٹوٹے دانت میرے اندر جدوجہد اور جنگ کاجذبہ جوان رکھتے ہیں ۔ اور یہی ہند و پاک کرکٹ مقابلوں کی داستان ہے ۔ بات اب صرف کرکٹ مقابلوں تک محدود نہیں رہی ۔ 1947ء کے بعد کے برسوں میں جس طرح ہندوستان نے کشمیری آبادی پر مظالم ڈھائے ہیں ، جس طرح وہاں قتل عام کیا ہے اور جس طرح اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے روگردانی کی ہے، پاکستان کے خلاف اس کا ہر کرکٹ مقابلہ ایک جنگ سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے ۔ کھیلوں کی تاریخ میں ہندو پاک کرکٹ دشمنی ایک خصوصی اہمیت کا حامل عنصر ہو چکی ہے ۔
دونوں کے درمیان ہونیوالے کرکٹ مقابلے کو کم از کم ایک ارب لوگ مختلف ذرائع ابلاغ استعمال کر کے دیکھتے ہیں ۔ 2011ء کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل دونوں ٹیموں کے درمیان ہوا تھا اور اسے 98کروڑ 80 لاکھ ناظرین نے دیکھا تھا ۔ 2015ء میں ہند اور پاکستان کے درمیان ہونیوالے مقابلے کا ٹکٹ فروخت کیلئے پیش ہونے کے 12منٹ کے اندر اندر سارے بک گئے تھے ۔ کرۂ ارض کے ہر پرندے تک کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ اس دشمنی کے ڈانڈے کشمیر پر ہندوستان کے ناجائز قبضے اور پھر اقوام متحدہ میں اس کی مسلسل وعدہ شکنی سے ملتے ہیں ۔ دونوں فریقوں کے درمیان ہونیوالے کرکٹ مقابلوںپر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ مقابلے پہلی بار 1951-52میں اس وقت منعقد ہوئے تھے جب پاکستانی ٹیم نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا ۔
پہلا میچ دہلی میں ہوا تھا جسے ہندوستانی ٹیم نے جیت لیا تھا ۔ دوسرے میچ میں پاکستان فاتح رہا تھا ۔ یہ مقابلہ لکھنؤ میں ہوا تھا ۔ ہار ہندوستانی تماشائیوں سے برداشت نہ ہو سکی چنانچہ انہوں نے اپنے کھلاڑیوں کی اچھی خاصی درگت بنا ڈالی ۔ تیسرا میچ ممبئی میں منعقد ہوا ۔ اسے ہندوستانی ٹیم نے جیتنا ہی تھا کہ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ یہ مقابلہ بھی ہار گئی تو پھر اسے تماشائیوں کے غصے سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔ کیوبا کے آمر فیڈل کاسٹرو کے عہد میں ان کے ملک کے مکہ باز دنیا بھر میں چھائے ہوئے تھے ۔ ہر مقابلہ جیت جاتے، اپنے ملکوں کو تمغوں سے بھرتے رہتے ۔ان کی کامیابی کے پیچھے ایک راز تھا ۔ جب کیوبا کا مکہ باز اکھاڑے میں اپنے کسی حریف سے مقابلہ کر رہا ہوتا تو اس کے ہموطن دوسرے مکہ باز اس کے کونے میں آکھڑے ہوتے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے ۔اگر وہ رائونڈ جیت کر اس کے اختتام پر اپنے کارنر میں آرام کرنے کیلئے جاتا تو اس کے ساتھ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے، اس کا حوصلہ بڑھاتے لیکن اگر وہ رائونڈ ہار کر کارنر میں پہنچتا تو اس کے ساتھی اس پر گھونسوں کی بوچھاڑ کر کے اسے سزا دیتے اور اسے اس انجام سے ڈراتے جو وطن واپس پہنچ کر اس کا ہونا ہوتا تھا ۔
زخمی مکہ باز سوچتا کہ وطن واپسی پر اگر وہ ایک ہارا کھلاڑی ہوتا ہے تو فیڈل کاسٹرو کی حکومت کی طرف سے سزا تو ہو گی، زندگی بھر کے طعنے بھی ہوں گے چنانچہ وہ نئے رائونڈ کے آغاز پر رنگ کے وسط میں نئے ولولے سے آتا ۔ جیت یا موت! اور وہ طلائی تمغہ لے جاتا !! ہندوپاک کے کرکٹ میچوں میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہو جاتی ہے ۔ جو کھلاڑی ایک چھکا لگا کر اپنے وطن کی گود میں فتح لاڈالتا ہے واپسی پر اُسے سونے میں تول دیا جاتا ہے اور جب ٹیم شکست سے ہمکنار ہوتی ہے تو پھر کبھی اکٹھی وطن واپس نہیں لوٹتی ۔ ٹکڑیوں میں بٹی مختلف شہروں کے ہوائی اڈوں پر نظریںچرائے اترتی ہے ۔ پھر پاک و ہند کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے یہ مقابلے دونوں جگہوں پر جذبات کا الائویوں بھڑکاتے ہیں کہ معاشروں میں تقسیم کا غیر مرئی عمل کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ مارچ 2013ء کے ایشیاء کپ کے مقابلوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا ۔ سوامی ویویکا نند سو بھارتی یونیورسٹی کے کشمیری طلباء ٹی وی کے سامنے بیٹھے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔
پاکستانی کھلاڑیوں کے اچھے کھیل پر انہوں نے تالیاں بجا دیں ۔ مقابلے کے اختتام پر انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ 66طلباء کو جامعہ بدری کا فیصلہ سنا دیا گیا ۔ ہندوستان خصوصاً پاک و ہند مقابلوں کے دوران ایک جذباتی الائو بن جاتا ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر پاکستانی ٹیم کی حمایت کرتے ہیں ۔ہندو رہنما بال ٹھاکرے نے کہا تھا کہ یہ بات ان کے علم میں ہے کہ جب بھی پاکستان ہندوستان سے ہارتا ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔ کشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا کیونکہ ہندوستان خود بھی ایک اکائی کے طور پر 1947ء سے قبل نہیں تھا ۔ سرینگر کو راہیں راولپنڈی سے نکلتی تھیں اور اس حقیقت کو کشمیری آج تک فراموش نہیں کر سکا ۔ جب بھی پاک و ہند کا کرکٹ مقابلہ ہوتا ہے کشمیر کے مسلمان پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں ۔ ان کا یہی عمل دونوں ممالک کے مابین ہونے والے مقابلوں کو ناقابلِ فراموش بناتا رہا ہے اور جب تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان عشروں سے معلق یہ خون آشام مسئلہ حل نہیں ہوتا یہ کرکٹ مقابلے اسی طرح سرحد کے دونوں اطراف کے خون میں چنگاریاں بھڑکاتے رہیں گے ۔
آج سوشل میڈیا پر انہی کشمیریوں کے بارے میں ایک دلکش تحریر دیکھی ۔ برطانوی ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد کشمیر میں جو مسرت کی لہر دوڑ ی اس پر لکھا ہے ۔ ’’پاکستان ٹیم کی فائنل میں رسائی کے بعد کشمیر کے 95فیصد لوگ خوشی سے ناچ رہے تھے ۔ باقی 5فیصد جیلوں میں تھے اور اب وطنِ عزیز کی ٹیم کے بارے میں ایک اور دلفریب تحریر :پاکستانی کرکٹ ٹیم اس پرانی بندوق کی طرح ہے جو مالک نے چور پر تانی ہوئی ہے ۔ دونوں ہی ڈر رہے ہیں، چور بندوق کے چلنے سے اورمالک بندوق کے نہ چلنے سے !! اللہ تعالیٰ بندوق کو چلنے کی توفیق عطا کرے، آمین۔

شیئر: