Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللّٰہ کی مدد کب آئے گی؟

ہمارے اعمال ہی ہمارے حکمراں ہیں ۔اگر ہمارے اعمال درست ہیں تو ہمارے حکمراں ہم پر مہرباں ہوں گےان کی سختی وقساوت قلبی ہماری بداعمالی کی وجہ سے اوراپنے پروردگار کے حکم سے بغاوت کی وجہ سے ہے۔
* * * مولانانثار احمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن* * * *
اسلامی ممالک کے بعض مسلمان حکمرانوں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ سمندری سفر سے اجتناب کرتے تھے کیونکہ وہ جب سمندر کا سفر کرتے توانہیں دَورانِ راس کی شکایت پیدا ہوجاتی،چکر آنے لگتا اورمتلی ہونے لگتی تھی۔بہت سے لوگوں نے اسے بزدلی اورکمزوری پر محمول کیا، ان کی ملامت کرنے لگے اورکہنے لگے کہ ایسے انسان حکمرانی کے لائق نہیں۔بھلا وہ کیا بہادری دکھا سکتا اورنئے علاقوں میں اپنے اثر ورسوخ کو وسعت دے سکتاہے جو سمندری سفر سے گھبراتاہوجبکہ بہت سے علاقوں تک پہنچنے کے لئے اس کے سوا اورکوئی چارۂ کارنہیں ہوتا۔
دوسروں کی تنقیدوں اورملامتوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ مجھے سمندری سفر سے اس لئے نفرت ہے کہ مجھے اس میں ہلاکت نظرآتی ہے، کہ ہم انسان مٹی کے بنے ہیں اوروہاں پانی ہے اورمٹی پانی میں گھل جاتی ہے۔اس کا جواب دیتے ہوئے دوسروں نے کہاتھا کہ جو پہاڑ کی چوٹی سرکرنے سے ڈرے گا وہ ہمیشہ گڑھے میں ہی پڑا رہے گا، یعنی انسان اسی وقت کامیابی حاصل کرسکتااورترقی کے منازل طے کرسکتاہے جبکہ وہ خطرات سے کھیلنا سیکھے اورکبھی ہمت نہ ہارے، جوہمت ہار کر بیٹھ جائے گا اورحالات کا مقابلہ کرنے سے دور بھاگے گا وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ بے جان مٹی کے اندر روح پھونکنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، کسی انسان یاکسی مخلوق کا یہ کام نہیں، ہاں انسان کا کام اس ذی روح انسانی پتلے میں روحِ عمل پھونکنا ،جوش وولولہ پیدا کرنا، کدوکاوش کا جذبہ اجاگر کرنا، خطرات سے کھیلنے پر اسے آمادہ کرنا ، زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے رہنے کے لئے امنگ پیدا کرناہے۔
اللہ کا اس کائنات میں یہی نظام ہے۔ وہ بے جانوں میں جان ڈالتا، ناممکنات کو ممکن بناتااورجو انسانی تصور سے بالاتر ہو، اسے وجود بخشتا اورنگاہوں کے سامنے لاکر دکھاتاہے تاکہ انسان اللہ کی عظیم قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس پر ایمان لائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اورپہلے انسان کا وجود میں آنا ہمیں دعوت دیتاہے کہ ہم بلندی پر پہنچنے اورچوٹیوں کو سرکرکے کمال کے مقام ومرتبہ کو حاصل کرنے کی مسلسل جد وجہد کریں، خواہ اس مقصد ومنزل اورکمال کو پانے میں پوری عمر صرف ہوجائے۔ مقصد کو پانے کے لئے محض خواب دیکھنا کافی نہیں بلکہ اُس کا خواب دیکھنے کے بعد اس کے لئے اٹھ کھڑے ہونا اوراُس راہ پر چل پڑنا ضروری ہے۔ انسان کو غور کرناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو کس طرح بنایا اورکن مراحل سے انہیں گزارا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کا پتلا بنا کر سالہا سال ایک طویل عرصہ تک روح پھونکے بغیر یوں ہی چھوڑدیا اورایک لمبی مدت گزرنے کے بعد ان میں جان ڈالی، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو یک بارگی نہیں پیدا کیا بلکہ مرحلہ وار6 دنوں میں پیدا کیا اورہے6 دن بھی اس دنیا کے نہیں بلکہ نظام ِعلوی کے دن ہیں جہاں کا ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہے:و ان یوماًعند ربک کالف سنۃ مما تعدون(الحج47)۔
اللہ تعالیٰ نے جس وقت آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا اُس وقت سورج اورچاند کا وجود نہیں تھا جس سے کہ ہم سالوں کا حساب لگاتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمینوں کو 6 دن میں پیدا کیا، اوریہ دن ہمارے دنوں کے حساب سے ایک ہزار سال کے برابر تھے۔ تخلیقِ ربانی کوئی غیر ارادی فعل یابے سوچے سمجھے عمل نہیں بلکہ اُس کا ہر عمل حکمت پر مبنی ہوتاہے، اس کا ہرکام محکم ہوتاہے، اس میں نہ جلد بازی ہوتی اورنہ ہی تدریج ومرحلہ وارانہ نظام کو نظر انداز کیاجاتاہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تدریج ومرحلہ وارانہ عمل تقدیر کا اٹوٹ حصہ اورحق پر قائم اس کا قانون و نظام ہے۔
سیدنا آدم ؑکی تخلیق، ان کی ذریت کی آمد اوران میں ہر طرح کی مثبت ومنفی تبدیلی بلکہ پیڑ پودے سے لے کر ہر چیز کے اندر تدریج ہے یہاں تک کہ درد والم، قوت وطاقت، خواہش وشہوت، علم ومعرفت، طاعت وفرمانبرداری، گناہ ومعصیت، لذت ورغبت جیسی چیزوں میں بھی تدریج ہے اورہرانسان ان مرحلوں سے گزرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت وارادے کے مطابق انسانی پتلے میں روح پھونکنے کا وقت آیا اورآدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی انسانی معجزہ معرض وجود میں آیا جسے اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات کی بہ نسبت انوکھا اورسب سے حسین شکل میں بنایا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے گویا بتایا کہ اس دنیا میں اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہے اوراس کا نظام اسباب کے ساتھ مربوط وجڑا ہواہے ورنہ اللہ تعالیٰ قادر تھے کہ آدم علیہ السلام کو آسمان وزمین کو اورساری چیزیں بہ یک حکم پیدا فرمادیں اورصرف اتنا کہہ دیں کہ ہوجا تووہ ہوجاتا، مگر اللہ تعالیٰ نے نہ سیدنا آدم ؑ کو اس طرح پیدا کیا اورنہ آسمان وزمین اوراس کی مخلوقات کوبلکہ اسے مرحلہ وار تدریجی طور پر پیدا کیا۔یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ بتاناچاہ رہا اورانسانوں کو سکھاناچاہتاتھا کہ وہ اپنی زندگی کے سفر میں اس نظام کو اپنائیں۔
اللہ نے ہمیں بتایاکہ ہم کسی بھی مقصد ومنزل تک پہنچنے کے لئے وہاں تک پہنچنے کا راستہ اختیار کریں، خواہ یہ راستہ کتناہی طویل کیوں نہ ہو۔خوابوں کی دنیا میں نہ رہیں اورمحض آرزوئوں وتمنائوںپر ہم تکیہ نہ کریں، ہم اپنی اس زندگی میں اگرمقصد کو پانا چاہتے اورمنزل تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اس کے لئے صحیح راستے کا انتخاب کریں، لائحہ عمل تیار کریں اورپھر اس پر عمل کرنا شروع کریں۔ ان اسباب ووسائل کو اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں، اپنے گناہوں وکوتاہیوں پر ندامت کا اظہار کریں، اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اورآنسوبہائیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا نُؤَخِّرُہٗ إِلاَّ لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ (ھود104)۔ ہر چیز کا اللہ کے نزدیک وقت مقرر ہے، وہ نہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہوسکتی ہے اورنہ اس میں تاخیر ہوسکتی ہے خواہ انسانوں کے لئے یہ کتنا ہی ناگواری کا سبب کیوں نہ ہو، اورلوگ اس پر کتنا ہی شور کیوں نہ مچائیں۔ حضرت خباب ابن ارتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم وہ اس دین کو ضرور پورا کرے گا یہاں تک کہ کوئی سوار صنعاء سے حضرموت کا سفر کرے گا اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا، سوائے اللہ کے، یا اپنی بکریوں پر بھیڑیوں کا، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو۔‘‘(رواہ البخاری)۔ ترقی خوشحالی، آزادی، امن وآمان اورفتح ونصرت کے لئے مسلمانوں کا خواب اوراس کی تمنا کا بھی خدائی نظام کے تابع ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عزم وحوصلہ ، جدوجہد اورسعیٔ پیہم کے ساتھ صبر سے کام لیاجائے اور ان مقاصد کو حاصل کرنے اوراس منزل تک پہنچنے کے لئے صحیح ومناسب راستہ اختیار کیاجائے، خواہ یہ راستہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔ اگر اس سے ہٹ کر ہم نے کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا تو دیوار سے سر ٹکرانے کے سوا اورکچھ نہیں ہوسکتا۔عقلمندی اسی میں ہے کہ دیواروں میں سرپیٹنے سے پہلے ہی ہم ہوش میں آجائیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کامیابی اورفتح ونصرت اتنی آسان نہیں کہ بس راستہ پر چلے اورمنزل تک پہنچ گئے بلکہ اس کے لئے پوری عمر گنوانی پڑتی اورنسل درنسل جہدِ مسلسل کے ساتھ انتظار دیکھنا پڑتاہے۔اگر کامیابی اورفتح وکامرانی اتنی آسانی سے مل جاتی تو یہ باقی نہیں رہتی اورنہ اس میں ثبات ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جائو گے،حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے،انہیں بیمایاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی،سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔‘‘(البقرہ214)۔ بلاشبہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں کار فرماہیں۔ انسان اس کی حکمتوں، مصلحتوں اورمنفعتوں کو سمجھنے سے قاصرہے۔ انسان بسااوقات اس کے مقاصد کو سمجھنے سے قاصر رہتاہے۔
آج ہمارے ملک، ہمارے شہر اورہمارے اردگرد جو حالات وواقعات رونما ہورہے ہیں اورساری دنیا کے اندر جس طرح مسلمانوں اوراسلام کیخلاف ایک طوفان بپا ہے اوربظاہر دنیا کی ساری طاقتیں ہمیں نیست ونابود کرنے، روئے زمین کو ہمارے وجود سے پاک کرنے اورہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے کمر بستہ ہیں دنیا کی ساری متضاد طاقتیں ہمارے خلاف بیک زبان ومتحد ہیں اورانہیں ہرجگہ کامیابی بھی مل رہی ہے، یقینا اس میں بھی اللہ کی مصلحتیں ہیں، وہ ہمیں خواب غفلت سے جگانا چاہتا ہے، ہماراشیرازہ بندی کرنا چاہتاہے، ہمیں اپنے کئے پر متنبہ کرنا چاہتاہے، ہم جتنی جلد اپنے خواب سے بیدار ہوجائیں ہمارے لئے بہتر ہے، ہم اگر آج اپنے اعمال درست کرلیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، احکام ِ الٰہی سے بغاوت ترک کردیں توکل کامیابی ہمارے قدم چومے گی مگر آج ہم بے جان پتلے کے مانند ہیں، ابھی اس میں روح ڈالنے کا شاید وقت نہیں آیا، جب ہم بیدار ہوںگے اللہ ہمارے اندر ضرور روح پھونکے گا۔ ان اللہ لایغیر مابقوم حتیٰ یغیروا ماباانفسہم۔ ایک حدیث کے اندر ہے کہ اللہ کے نبی نے فرمایا: ’’اعمالکم عمالکم‘‘ ۔ کہ ہمارے اعمال ہی ہمارے حکمراں ہیں ۔اگر ہمارے اعمال درست ہیں تو ہمارے حکمراں ہم پر مہرباں ہوںگے۔ان کی سختی وقساوت قلبی ہماری بداعمالی کی وجہ سے اوراپنے پروردگار کے حکم سے بغاوت کی وجہ سے ہے۔

شیئر: