Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

23سالہ رفاقت کا اختتام، انور انصاری کو الوداعیہ

موصوف خطاط بھی ہیں اور مصور بھی، ان کی ہمہ جہت شخصیت ان گنت دلوں میں سکونت پذیر ہے
* * * شہزاد اعظم ۔ جدہ* * *
ہم نے اپنی متعدد سالہ زندگی میں بلا امتیازِ تذکیر و تانیث ’’لطیفہ‘‘ قرارپانے والے فنون کے ’’قابل شمار‘‘ماہرین سے ملاقات کی۔ ان میں مصور بھی تھے، شاعر بھی، مصنف بھی تھے ،ناثر بھی، ان میں خطاط بھی تھے اور علوم کے ماہر بھی۔ ان سے ملاقاتوں اور باتوں کے بعد ہم نے یہی اخذ کیا کہ دنیا میں کسی بھی پیشے سے منسلک شخصیت بظاہر کچھ اور بباطن کچھ اور ہوسکتی ہے مثلاً بظاہر تعلیمیافتہ دکھائی دینے والاشخص، عملی طور پر جاہل انسان ہو سکتا ہے۔ اسی طرح شکل و صورت سے بے حدظالم نظرآنے والا وجود عملی طور پر انتہائی مہربان ہو سکتا ہے ، اپنے رویے سے سادہ لوح دکھائی دینے والا فرد سیاستدان ہو سکتا ہے ۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ جو شخص جیسا ہو، ویسا ہی دکھائی دے، جس کا ظاہر، عکس ہو اپنے باطن کا۔ پھر یوں ہوا کہ ہم عروس البحر الاحمر ’’جدہ‘‘ چلے آئے ۔
یہاں ہم نے پہلی مرتبہ جب انور انصاری کو دیکھا توموصوف گائے کے مکھن کے رنگ اور اسی جیسی چکنی بوسکی کے کرتے میں ملبوس تھے جس کے بغیر کالر والے گلے میں چاندی کے بٹن ڈالے گئے تھے ۔ سخت گرمی کے باوجود انہوں نے سیاہ رنگ کی صدری بھی پہن رکھی تھی ۔ جناب کی زلفیں اتنی طویل نہیں تھیں کہ کسی کے شانے تک پہنچنے کی جرأ ت کر سکتیں چنانچہ وہ ان کے اپنے ہی شانوں کو چھو رہی تھیں۔ انہوں نے چوڑے پائنچوں والاسفید پاجامہ بھی زیب تن کر رکھا تھا جبکہ پاؤں سلیم شاہی میںچھپا رکھے تھے ۔ ہاتھ میں نگوں والی انگشتری ، کلائی میں قیمتی گھڑی اور انگلیوں میں سگریٹ دباہوا تھا۔ ہم سمیت ہر کسی کے پاس جا کر جھک کر یوں مصافحہ کر رہے تھے جیسے داد وصول کر رہے ہوں۔
انہیں دیکھ کرہمیں خیال آیا کہ ان صاحب کو تو شاعر ہونا چاہئے کیونکہ ان کی تمام حرکات و سکنات شاعروں والی تھیں۔ بعد ازاں جب پتا چلا کہ جناب واقعی شاعر ہیں تو ہم نے خود اپنی کمر تھپتھپائی اور سوچا کہ ہم بھی جہاں شناس ہوتے جا رہے ہیں۔انور انصاری شکلاً، عملاً اور اصلاً شاعر ہی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انور اگر شعر نہ کہتے تو بھی شاعر ہی ہوتے کیونکہ ان میں شاعروں والی تمام علتیں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ہم نے زندگی میںیونہی عام جھام سے اشعار کہنے والے اکثر شاعر ایسے دیکھے ہیں جواپنے بارے میں ہر کسی کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آج میر و غالب بھی میرے ہم عصر ہوتے تو مجھے اپنا استاد مانتے مگر اُن دونوں کی خوش قسمتی کہ مجھ سے پہلے ہی دنیا میں آ کر شاعری کر کے چلتے بنے جبکہ انور نصاری ایک ایسے شاعر ہیں جو تکبرِ شعری میں مبتلانہیں بلکہ انتہائی منکسر المزاج شاعر ہیں حالانکہ خیال کی ندرت دیکھئے ، کہتے ہیں:
*سب چھوڑ گئے ہیں کوئی آوازہ نہیں ہے
*قبروں کی طرح گھر میں بھی دروازہ نہیں ہے
*جتنے بھی ترے غم ہیں، وہ سب بانٹ لے مجھ سے
*کب تجھ سے بچھڑ جاؤں یہ اندازہ نہیں ہے
ایک روز ہم دفتر پہنچے تو دیکھا کہ انور صاحب قلم سے قرطاس کو ’’رگید‘‘رہے ہیں۔ ہم نے قریب جا کر دیکھا تو انور انصاری کی نازک انگلیوں میں تھما قلم اپنی فنکارانہ چالیں چل رہا تھا، زیرِ قلم قدیم جدہ کی منظر کشی تھی جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھی اور خود بول رہی تھی کہ میں سالوں قدیم جدہ کے بلد کی ایک گلی ہوں۔ہم نے فوراً موازنہ شروع کر دیا کہ اگر وہ اپنے اُس ہاتھ سے یہ کام کر سکتے ہیں تو ہم اپنے اِس ہاتھ سے وہ کام کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارے’’ ذہنِ رسا‘‘ نے سمجھایا کہ کہاں انور ا نصاری کا ہاتھ جسے دیکھ کر عدم کا شعر یاد آئے کہ:
*اُس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم
*ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے
مجھے اور دوسری جانب آپ کا ہاتھ کہ اگر کہیں پڑ جائے تو تمام ساز خاموش ہوجائیں۔ اس لئے انور صاحب کم از کم’’ ہاتھ کی رو سے‘‘ تو ایک نابغۂ روزگار مصور و خطاط لگتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ہم نے اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے ہمیں اپنے سیکڑوں فن پارے دکھاڈالے جن کی نمائشیں دنیا کے مختلف ممالک میں ہو چکی ہیں۔ تبدیلی ایک ایسی کیفیت ہے جو زندگی میں کسی بھی وقت انسان کو اپنے نرغے میں لے سکتی ہے اور عموماً اس کا ’’شکار‘‘ وہی شخصیات ہوتی ہیں جو ہمہ جہت نوعیت کی ہوںورنہ لکیر کی فقیر ہستیاں تو ایک ہی ڈھول پیٹتے پیٹتے بالائے زمین سے زیر زمین چلی جاتی ہیں۔ انور انصاری ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ شاعر بھی ہیں، مصور بھی ، وہ خطاط بھی ہیں اور مقرر بھی، وہ ناظم بھی ہیں اور مبصر بھی ، وہ بذلہ سنج بھی ہیں اور مدبر بھی ۔اسی لئے تبدیلی ان کا وصفِ گراں مایہ بن کر سامنے آئی ۔
ہماری ان سے اولیں ملاقات کو آج 22 سال،8 ماہ، 8دن گزر چکے ہیں۔ اُس دور کے انور اور آج کے انور میں زمین و آسمان کا نہ سہی ، مشرقین کا بُعد ضرور ہے جسے مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک وہ انور انصاری تھے جو سارے زمانے کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی تگ و دو میں تھے اور ایک یہ انور انصاری ہیں جوزمانے کے ساتھ چلے جا رہے ہیں۔ اُس دور کے انور انصاری جو کچھ ٹھیک ہوتا اسے بھی دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ یہ سب غلط ہے اور آج وہ جب بہت کچھ غلط دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’چلوٹھیک ہے۔‘‘موصوف کایہ’’ مشاورتی تکیہ کلام‘‘ سنتے سنتے جب کان پک گئے تو ہم نے اسے نظم کرنے کی کوشش کی، آپ بھی استفادہ فرمائیے:
*مرے ساتھ جس نے بُرا کیا *وہ جو مال لوٹ کے کھا گیا
*وہی ظلم جس نے سوا کیا
*مجھے کہہ رہا ہے سدیک ہے
*چلو ٹھیک ہے، چلو ٹھیک ہے
٭٭٭
*یہ جو ساتھیوں کی دعائیں ہیں
*یہ محبتوں کی قبائیں ہیں
*یہ جو دشمنوں کی جفائیں ہیں
*یہ معاملہ تو رکیک ہے
*چلو ٹھیک ہے، چلو ٹھیک ہے
ایک اور تبدیلی جو ہم نے انور انصاری میں دیکھی وہ انتہائی سبق آموز اورساتھ ہی ناقابلِ فراموش ہے۔ ایک روز دفتر میں بیٹھے بیٹھے وہ غنودگی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ حالات کی نزاکت دیکھ کر ایمبولینس بلوائی گئی، اسپتال میں ڈاکٹروں نے دیکھا تو کہا کہ دل کا مسئلہ ہے، بائی پاس ضروری ہے۔ ہم یہ سن کر پریشان ہوگئے، دل میں وساوس کے اجتماعات منعقد ہونے لگے۔ ہم نے ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے حوصلہ دلانے کی کوشش کی تو انہوں نے فوری ہماری پریشانی بھانپ لی اورآؤ دیکھا نہ تاؤ،ہماری ’’ڈھارس‘‘ بندھانی شروع کر دی کہ پریشانی سے کوئی فائدہ نہیں، رب کریم سے دعا کرنی چاہئے ، وہ کرم فرمائے گا۔زیادہ سے زیادہ کیا ہے ، یہی ناں کہ آپریشن کامیاب نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ جائیں گے، تو فکر کیا ہے، جس کے بندے ہیں، اسی کے پاس پہنچ جائیں گے ۔
یہ یاد رکھیں کہ: ’’کارسازِ ما بہ فکرِ کارِ ما‘‘ پھر وہ پاکستان گئے، آپریشن ہوا، آئی سی یو میں رہے اور پھر ہمارے درمیان آگئے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ شخصیت جو سگریٹ کے بغیر سانس لینا بھی نامناسب سمجھتی تھی، اس نے اس ’’دھوئیں بازی ‘‘ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔ یوں ان کی یہ باتیں ہمارے لئے سبق آموز اور ناقابلِ فراموش قرار پائیں۔ انور انصاری ان گنت خواص اور بے شمار عوام کے دلوں میں سکونت پذیر ہیں۔ ان میں نہ صرف دبنگ لہجے کے شاعر ناصر برنی، منفرد اسلوب کے حامل مجاہد سید، عالمی اردو مرکز کے صدر، معروف شاعر اطہر عباسی ، استاد شاعر نعیم حامد علی الحامد، ممتاز ادبی شخصیت فضاء الرحمن جیسی شخصیات شامل ہیں بلکہ آبروئے ریختہ ، استادِ سخن رسا چغتائی ، بین ا لاقوامی شاعر سلیم کوثر، مزاح نگارخالد عرفان، معروف شاعر و دانشور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم،پروفیسر سحر انصاری، انور جاوید ہاشمی جیسی قد آور شخصیات بھی ان کی مداح ہیں۔
یہ شاید ’’چلو ٹھیک ہے ‘‘ جیسے ’’نعرۂ مستانہ‘‘کا ہی جواب ہے۔ انور انصاری نے مملکت میں قیام کے دوران متعدد عالمی مشاعروں،ادبی شاموں، نشستوں، محافل اور تقریبات میں ’’باقاعدہ دعوت ناموں‘‘ کے بل پر نہ صرف شرکت کی بلکہ کئی ایک میں نظامت کے فرائض بھی بحسن و خوبی انجام دیئے۔ ان کی شاعری میں وحشت، بال، اُداسی، صحرا اور رقص جیسی کیفیات و حرکات کاخاصا عمل دخل پایاجاتا ہے جو انہیں فنِ سخن گوئی میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ان کے کلام کا نمونہ پیشِ خدمت:
زندگی بھر کبھی اخبار بچھا کر سوئے
 اور کبھی سایۂ دیوار بچھا کر سوئے
٭٭٭
 مژگاں میں چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہم
 ٹھہرے ہوئے موسم کے نظارے کی طرح ہم
دونوں ہی بھٹکتے رہے تاریکیٔ شب میں
 جگنو کی طرح تم تو ستارے کی طرح ہم
٭٭٭
فلک سے توڑ کے تارہ زمیں پہ لاتا ہوں
اُسے تراش کے گھر کا دیا بناتا ہوں
مری نگاہ کا ہر خواب خوبصورت ہے
 میں اپنے خواب کی تعبیر خود بناتا ہوں
 فلک بھی چاند کی گردش کو روک دیتا ہے
میں اُس کلائی میں جب چوڑیاں گھماتا ہوں
٭٭٭
اک عکسِ ماہتاب تصور میں ڈھال کر
 میں دھو رہا ہوں چاند کا چہرہ سنبھال کر
جتنی بھی لذتیں تھیں سفر کی چلی گئیں
پچھتا رہا ہوں پاؤں کا کانٹا نکال کر
٭٭٭
آنکھوں میں نظر باندھی، پیروں میں سفر باندھا
 میں دشت میں تھا برسوں، اور دشت کو گھر باندھا
پانی پہ ہوا باندھی، پھر اس پہ دیا رکھا
 پل پل کے اندھیرے کو، تعبیرِ سحر باندھا
٭٭٭
 آسمانوں کی طرح مجھ میں خلا پیدا ہو
تاکہ کچھ درد سمونے کی بھی جا پیدا ہو
رنجشیں جم گئیں کائی کی طرح پانی میں
آؤ مل جاؤ کہیں، پھر سے گلہ پیدا ہو
٭٭٭
کبھی گونجا تھا مجھ میں آج وہ آوازہ گھر میں ہے
تمہاری یاد کا اب وہی شیرازہ گھر میں ہے
اُداسی ، یاس ، تنہائی سے میں تشکیل پاتا ہوں
ذخیرہ ان بلاؤں کا تو بے اندازہ گھر میں ہے
ہوئے دشت کی دستک سے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں
اُسے بھی اب خبر یہ ہوگئی، دروازہ گھر میں ہے
٭٭٭
 آنکھوں میں سرابوں کی انمول نشانی ہے
اک آنکھ میں صحرا ہے، اک آنکھ میں پانی ہے
 جن خواب دریچوں میں اک عکس سا پنہاں تھا
اُن خواب دریچوں کی تصویر بنانی ہے
٭٭٭
آواز گونجتی رہی سائے کی چاپ سے
 یا آئینہ تھا محوِ سخن اپنے آپ سے
 یہ عکس دیکھتا ہوں تخیل کی جھیل میں
شرما رہا ہے چاند جہاں اپنے آپ سے
ہم نے گزشتہ 22سالوں میں انور انصاری کی جتنی بھی شاعری سنی، اس کے باعث ہمارے ذہن پر جو کیفیات طاری ہوئیں اور ان کا کلام سن کر ہم جو کچھ سمجھ سکے ، وہ سب چند مصرعوں میں پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
 صحرا ، وحشت، زلف، اندھیرا، تنہائی اور بیزاری
پیاس، سمندر، ریت ، بھنور، آسیب ، بگولہ ، چنگاری
در ، دیوار، دریچہ، سائے ، ہجر، تمنا، سرشاری
 شام اُداسی، خواب، جنوں، احساسِ مروت، خودداری
مل گئے سب اوصافِ سخن تو ذہن میں اک قامت ابھری
کہنے لگی میں ایک غزل، مرے شاعر انور انصاری
آج جب انور انصاری وطن واپس ہو رہے ہیں ، دفتر کے ساتھیوں نے انہیں دعوتِ سحر کی شکل میں الوداعیہ دیا ۔ اردونیوز اور ملیالم نیوز کے ایڈیٹر ا نچیف طارق مشخص بطور خصوصی مہمان شریک ہوئے۔ اس موقع پرانہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انور انصاری ایک مصور، شاعر اور خطاط ہیں،وہ ایک مکمل فنکار ہیں۔ فنکار ہمیشہ مطمئن رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کام کے دوران بھی اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو وہ ہمیشہ پرسکون رہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح ہم نے انور انصاری کی رفاقت کو انجوائے کیا اسی طرح انہوں نے بھی ہمارا ساتھ انجوائے کیا ہوگا۔
اردونیوز کے ایڈیٹر ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان نے انور انصاری کے فن اور ان کی شخصیت کی تعریف کی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے فن کی طرح خوبصورت شخصیت کے حامل ہیں۔وہ دفتر کے سبھی ساتھیوں کی نظر میں ا یک اچھے انسان ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہ وطن جا کر بھی خوش و خرم رہیں ۔ اللہ کریم انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے ۔ دفتر کے دیگر ساتھیوں نے بھی تقریب کے دوران انور انصاری کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ ہمیں وہ یاد آئیں گے تاہم پاکستان میں بھی ان سے ہمارا رابطہ رہے گا۔ باعثِ تقریب انور انصاری نے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے یہاں بھیجا اور آپ جیسے احباب کے ساتھ اُردونیوز کے لئے خدمات انجام دینے کا موقع عطا فرمایا۔انہوں نے موقع کی مناسبت سے اپنا ہی ایک شعر پڑھا کہ :
مری طلب میں کہاں تھا یہ نجد کا صحرا
وطن سے کھینچ کے لایا تھا آب و دانہ مجھے
انور انصاری نے کہا کہ آپ سب لوگوں نے میری غلطیوں کو، کوتاہیوں کو در گزر کیا، معاف کیا جس کے لئے میں آپ سب کا مشکور ہوں۔ میں سمجھتا ہو ں کہ آئندہ بھی آپ مجھے دعائوں میں یاد رکھیں گے۔ایڈیٹر انچیف طارق مشخص کا بھی میں ممنون ہوں کہ انہوں نے ہر طرح خیال رکھا۔ میں اللہ کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری زندگی کے جو بڑے اہداف تھے، بچے بچیوں کی شادیاں تھیں، وہ سب مکمل ہو گئے۔میں ا لحمدللہ، کامیاب ہوگیا۔یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اب میں وطن جا کر آرٹ پر توجہ مرکوز کروں گا۔ تقریب کے آخر میں انور انصاری کو ’’

شیئر: