Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب ایک ’مخلص‘ اور ’قابل قبول‘ مقام ہے، صدر پوٹن

برکس کانفرنس میں سعودی عرب کی نمائندگی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کریں گے۔ فوٹو: عرب نیوز
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ سعودی عرب اپنی کوششوں میں ’مخلص‘ ہے اور روس یوکرین امن مذاکرات کے لیے ایک اہم مقام ہو گا۔
روسی دارالحکومت ماسکو میں برکس بزنس فورم کی افتتاحی تقریب کے بعد پریس کانفرنس میں عرب نیوز کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ سعودی عرب کی میزبانی میں اگر امن کانفرنس منعقد ہوتی ہے تو وہ اس میں شرکت کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے ساتھ ہی واضح کیا کہ بات چیت کا موضوع مقام سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
عرب نیوز کے ایڈیٹر ان چیف فیصل عباس کے سوال کے جواب میں صدر پوٹن نے کہا کہ ’اگر سعودی عرب میں اس طرح کا اہتمام کیا جائے اور یہ مقام قبول ہو تو یہ ہمارے لیے بھی قابل قبول ہوگا۔‘
تاہم ولادیمیر پوٹن نے زور دیا کہ بات چیت کا موضوع سابقہ مذاکرات پر مبنی ہوگا بالخصوص اُس معاہدے کے مسودے پر جو ابتدائی طور پر 2022 میں استنبول میں ہوا تھا جس کے متعلق روسی صدر کا کہنا تھا کہ بعد میں یوکرین اس مسودے سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’امن کے حصول کے لیے ہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کو تیار ہیں تاہم اس دستاویز کی بنیاد پر ہوں جو کئی ماہ لگانے کے بعد ایک مفصل بات چیت کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اس کی ابتدا بھی یوکرین کی طرف سے ہی ہوئی تھی۔‘
ولادیمر پوٹن نے واضح کیا کہ مذاکرات روس نے نہیں بلکہ یوکرین نے روک دیے تھے۔
سعودی عرب نے روسی حملے کی اقوام متحدہ میں مذمت کے باوجود ایک متوازن مؤقف اپنایا ہوا ہے، یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور تنازع کے حل کے لیے آمادگی کا بھی اظہار کیا ہے۔
صدر پوٹن نے مملکت کے متوازن نقطہ نظر اور بات چیت میں دونوں فریقوں کو شامل کرنے کی صلاحیت کو تسلیم کیا۔

صدر پوٹن نے کہا کہ یوکرین امن کے حوالے سے سعودی عرب اپنی کاوشوں میں مخلص ہے۔ فوٹو: عرب نیوز

انہوں نے واضح کیا کہ روس امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، ’ہم واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ روس پُرامن طریقوں کے ساتھ جلد از جلد (امن مذاکرات) شروع کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو سراہتے ہوئے صدر پوٹن نے کہا کہ ’ہمارے شاہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور ولی عہد کے ساتھ ذاتی دوستانہ تعلقات ہیں۔ میں جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے سعوی عرب جو بھی کرے گا، خلوص کے ساتھ کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے خود کو ایک اہم ثالث کے طور پر ظاہر کیا ہے جس نے ماسکو کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں توازن رکھا۔
سولہویں سالانہ برکس سربراہی کانفرنس آئندہ ہفتے روس کے علاقے کازان میں ہونے جا رہی ہے جس میں پانچ رکن ممالک برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شریک ہوں گے۔
جبکہ نئے ارکان مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات پہلی مرتبہ برکس کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
گزشتہ سال سعودی عرب کو بھی بلاک میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ کانفرنس میں مملکت کی نمائندگی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کریں گے۔
صدر پوٹن نے عرب نیوز کو بتایا کہ اسرائیل فلسطین تنازع بھی کانفرنس میں زیر موضوع آئے گا۔
انہوں نے دو ریاستی حل کے لیے کریملن کی حمایت کا اعادہ کیا اور کہا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین میں حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہوں نے صدر محمود عباس کو بھی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔

صدر پوٹن نے کہا کہ یوکرین امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب قابل قبول مقام ہو سکتا ہے۔ فوٹو: عرب نیوز

’ہمارا مؤقف سب کو معلوم ہے۔ ہمارے مؤقف کی بنیاد یہی ہے کہ دو ریاستوں اسرائیل اور فلسطین  کے قیام کے لیے ہمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ یہی تمام مسائل کی جڑ بھی ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی مسئلے کو صرف معاشی اقدامات تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس تنازع کو ’تاریخی‘ اور ’روحانی‘ تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
صدر پوٹن کے خیال میں حل ایک ہے کہ فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ روس کا مؤقف آج بھی وہی ہے جو سوویت یونین کے دور میں تھا کہ ’فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کا بنیادی طریقہ یہی ہے کہ ایک مکمل فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔‘
صدر پوٹن نے مشرق وسطیٰ کواٹرٹ کو ختم کیے جانے پر بھی تنقید کی جس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس اور امریکہ شامل تھے اور جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ثالثی کرنا تھا۔
پریس کانفرنس کے دوران صدر پوٹن نے بتایا کہ 30 دیگر ممالک بھی برکس ممالک کے ساتھ شراکت داری میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے کہا ’دروازے کھلے ہیں، ہم کسی کو بھی نہیں روک رہے۔‘

شیئر: