سعودی عرب سے ریفائنری اپگریڈ اور گرین فیلڈ پراجیکٹس پر مذاکرات ہو رہے ہیں:مصدق ملک
مصدق ملک نے کہا کہ دونوں ممالک برنس ٹو بزنس شراکت داری کو بھی پروان چڑھا رہے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)
پاکستان کے وزیر برائے توانائی ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے اپنے دوطرفہ تزویراتی تعلقات کو تیل کی ریفائنری کو اپگریڈ کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات کے لیے گرین فیلڈ منصوبے کے ذریعے مزید گہرا کرنے جا رہے ہیں۔
مصدق ملک کا ریاض میں منعقد ہونے والے ورلڈ انوسٹمنٹ کانفرنس کی سائیڈلائن پر عرب نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون توانائی کے منصوبوں سے بڑھ کر ہے۔
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ’ہم مملکت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں کہ مستقبل میں ہماری توانائی کی ضروریات خصوصاً قابل تجدید توانائی کے سیکٹر میں کیا ہیں۔ اور ہم مل کر اس حوالے سے مواقع کی نشاندہی اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پروگرام بنا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دو مختلف منصوبے زیر غور ہیں اور آپ کہہ سکتے ہیں اس وقت ان پر تحقیق ہو رہی ہے۔‘
‘ایک منصوبہ ریفائنریوں کی استعداد بڑھانے کا ہے جب کہ دوسرا منصوبہ ایک بڑے گرین فیلڈ ریفائنری کا ہے جو کہ نہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ ہائیڈرو کاربن بھی پیدا کرے گی۔ تو یہ منصوبے انڈر ریسرچ ہیں، ان پر مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ فائنل نہیں ہوئے ہیں۔‘
مصدق ملک نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری صرف سرمایہ کاری کرانے یا ٹیکنالوجی کی منتقلی تک محدود نہیں بلکہ اس میں مستقبل میں پاکستان کی توانائی کی ممکنہ ضروریات کو سٹڈی کرنا بھی شامل ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان ضروریات میں کیا تبدیلیاں آسکتی ہیں۔‘
وزیر توانائی کے مطابق اس مستقبل بینی پر مشتمل اپروچ کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ممالک صرف فوری ضروریات پر ردعمل نہیں دیں بلکہ طویل مدتی منصوبہ بندی بھی کریں۔
مصدق ملک نے کہا کہ اس اپروچ کے تحت دونوں ممالک برنس ٹو بزنس شراکت داری کو بھی پروان چڑھا رہے ہیں۔
’ہمارے وزیراعظم کا ویژن ہے کہ حکومت کو کاروبار نہیں کرنا چاہیے بلکہ کاروبار کی سہولت کاری کرنی چاہیے۔‘
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ جس تصور پر ہم کام کر رہے ہیں اس کا بڑا حصہ اس پر مشتمل ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے نجی سیکٹر آپس میں تعاون اور شراکت داری کرے۔
مصدق ملک نے کہا کہ رواں سال اکتوبر میں 2.8 بلین ڈالر لاگت کے منصوبوں کے مفاہمتی یاد داشتوں پر دونوں ممالک نے دستخط کر دیے تھے۔
’ان 28 سے 30 مفاہمتی یاداشتوں میں سے سات سے آٹھ پر معاہدے بھی ہوچکے ہیں اور ان پر تین سے چار ماہ کے مختصر عرصے کے دوران عمل درآمد بھی ہوا ہے۔‘