امریکہ میں سعودی عرب کے سابق سفیر پرنس ترکی الفیصل نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کو نکالنے کا منصوبہ ’نسل کشی‘ کے مترادف ہو گا جو نئے تنازعات اور خونریزی کو جنم دے گا۔
عرب نیوز کے مطابق پرنس ترکی الفیصل جو مملکت کی انٹیلی جنس سروسز کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، نے امریکی نیوز چینل سی این این کو دیے گئے انٹرویو کے دوران امریکی صدر کے اس تبصرے پر ناراضی کا اظہار کیا اور سختی سے رد کیا، جس میں غزہ میں فوجی بھیجنے اور اس کو ‘ریویرا آف مڈل ایسٹ‘ بنانے کا ذکر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ عرب دنیا، مسلم ممالک، یورپ اور دوسرے ممالک سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھائیں تاکہ یہ واضح ہو سکے دنیا ’پاگل پن پر مبنی نسل کشی کے منصوبے‘ کی مخالفت کرتی ہے۔
مزید پڑھیں
ان کے مطابق ’یہ افسانوی سوچ ہے کہ 21ویں صدی میں عالمی برادری نسل کشی کے منصوبے کو قبول کر لے گی۔ فلسطین میں مسئلہ فلسطینیوں کی موجودگی کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اسرائیلی قبضہ ہے، یہ بات سب پر عیاں ہے اور سب اس کو سمجھتے بھی ہیں۔‘
پرنس ترکی الفصیل نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر کے تبصرے نے امریکہ کی اس پچھلی پالیسی کو بھی الٹ دیا ہے جو قیام امن کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ اسرائیل کے انتہا پسند سیاست دان اتامر بین گویر کے مؤقف پر مبنی ہے جو بڑے پیمانے پر ایسی نسلی کشی چاہتے ہیں اور جنہوں نے حال ہی میں جنگ بندی کے معاہدے پر قومی سلامتی کے وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔
ترکی الفیصل نے ٹرمپ ک الفاظ کو ’امریکی حکومت میں اسرائیلی مؤقف کی مکمل قبولیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے سیاسی حلقوں میں ایسے نقطہ نظر کو پچھلے دو سال سے حمایت مل رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر صدر ٹرمپ سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں تو سعودی قیادت کی جانب سے انہیں کہا جا سکتا ہے کہ ’وہ جو تجویز دے رہے ہیں وہ دانشمندانہ نہیں، بلکہ سراسر ناجائز اور ناانصافی پر مبنی ہے۔‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور اپنے پہلے دور میں انہوں نے پہلا غیرملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کیا تھا۔
پرنس ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے پچھلے ماہ امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا تھا۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنے کی تجویز کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور مملکت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں لائے جائیں گے جب تک مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بناتے ہوئے فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔

ان کے مطابق ’سعودی عرب کا شروع سے یہی مؤقف رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی حمایت میں بنایا جانے والا یہ منصوبہ حماس جیسے عسکری گروپس کی حمایت کو مزید تقویت دے گا۔
پرنس ترکی الفیصل کے مطابق ’ہر کوئی اسرائیل کو بتاتا رہا ہے کہ اگر وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے، سزائیں دیتا ہے، ان پر موت اور تباہی مسلط کرتا ہے اور نسل کشی کرتا ہے تو وہ اپنے لیے مزید مخالفین پیدا کر رہا ہے۔‘
’اسی لیے وہ لوگوں کو علاقے سے نکال کر ان کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔‘
پرنس ترکی الفیصل نے اسرائیل کے حوالے سے آخر میں کہا کہ ’ان کی پالیسی بڑی واضح ہے اور بدقسمتی سے صدر ٹرمپ کے الفاظ میں بھی جھلکتی ہے۔‘