جاپان کے فلمساز کانیکو ماساکاذو جو اپنی فلموں میں فطرت، یادِ ماضی اور فرضی حکایات کی تلاش کی وجہ سے مشہور ہیں 11و یں سعودی فلم فیسٹیول میں قصہ گوئی اور ثقافت کے درمیان گہرے تعلق پر پُرمغز گفتگو کی ہے۔
اس بات چیت میں سعودی عرب سے عبدالرحمن القرزعی بھی شریک تھے جو بہت روانی کے ساتھ جاپانی زبان بولتے ہیں۔ انھہوں نے مترجم کے فرائض بھی ادا کیے۔
مزید پڑھیں
-
ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹول، فلموں کے لیے جیوری کا اعلانNode ID: 720501
-
کانز فلم فیسٹول میں پہلی سعودی فلم ’نورہ‘ کی نمائش کا اعلانNode ID: 850706
-
چینی سینما گھروں میں پہلی بار سعودی فلم کی نمائشNode ID: 880011
گفگتو میں اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ وسیع ارضی مناظر، لوک داستانیں اور ثقافتی شناخت، کسی فلم کی کہانی کی تشکیل کس طرح کرتے ہیں۔
ماساکاذو نے فلم سازی پر اپنے زاویہِ نگاہ کے متعلق بات کی اور خاص طور پر گزشتہ برس اپنی ریلیز ہونے والی فلم ’ریور ریٹرنز‘، جو ان کی تیسری فیچر فلم ہے اس کے بارے میں اپنے خیالات بتائے۔
یہ فلم سعودی فلم فیسٹیول میں چند روز پہلے دکھائی گئی تھی اور اس کی نمائش تئیس اپریل تک جاری رہے گی۔
یہ فلم جو خیالی صورت گری اور ڈرامے کا حیران کن امتزاج ہے، جاپان کے ایک گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور ایک لڑکے کے پُر خطر سفر کی کہانی ہے جو بظاہر مافوق الفطرت اسباب سے متاثر پانی کی طرف جاتا ہے۔ سفر سے لڑکے کی یہ امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ اس غم زدہ روح کو شانت کر لے گا جو گاؤں میں تباہ کن سیلاب کا باعث بن رہی ہے۔
کہانی کا مقام، وقت اور منظر، 1958 میں آنے والا طوفان ہے جو فلم میں لڑکے کے سفر کا پس منظر بنتا ہے۔
ماساکاذو نے انکشاف کیا کہ ان کا کام ہمیشہ انسان اور فطرت کے درمیان تعلق کے گرد گھومتا ہے۔

انھوں نے کہا: ’ انسان اور فطرت کے درمیان تعلق ہی میرے کام کا ثقافتی موضوع ہے۔ اور میرا کام ان کہانیوں کو شاعرانہ بلکہ بہت حد تک اساطیری انداز میں بیان کرتا ہے۔‘
ان کی فلم ’ریور ریٹرنز‘ میں ایک لڑکے کا پہاڑ کے قریب تالاب کی جانب سفر محض جسمانی نہیں ہے۔ اس میں روحانی اور جذباتی تلاش کا پہلو بھی ہے۔
فلم میں بہت موثر انداز میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح قدرتی آفات کو روحانی اضطراب کے اظہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ قدرتی آفات اور روحانی اضطراب کے درمیان تعلق، جاپان کی لوک داستانوں کا ایک تصور ہے جس سے بظاہر سعودی ناظرین نے قربت محسوس کی۔
فلم کی دم بخود کر دینے والے عکاسی بہت خوبصورتی سے، متین ارضی مناظر اور شدید سمندری طوفان کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے فطرت کی نرم مزاج اور تباہی پر آمادہ قوتوں کی حرکیات کو اجاگر کرتی ہے۔
فلم کے پیغام کو دیکھنے والوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اس کا کیا مطب نکالتے ہیں۔ کیا وہ فلم دیکھنے کے بعد اداسی کا شکار ہوتے ہیں، یا ان میں محبت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے یا پھر انھیں یہ فلم کسی قدیم کہانی کی بازگشت لگتی ہے۔
ماساکاذو کا کہنا تھا کہ ’آخر میں یہ (کہانی) ایک ثقافت کی منتقلی ہے، لوک داستان کی ایک سے دوسری مقام کی طرف ترسیل ہے، جو دیکھنے والوں کو ان جذبات کی طرف لوٹاتی ہے جو انسانوں میں مشترک ہیں۔ میری دلچسی یہ ہے کہ جاپان سے باہر کی دنیا کے لوگ اس فلم کی طرف کس طرح مائل ہوتے ہیں اور کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔‘