Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رہائی کے بعد شہری اپنی ضبط شدہ اشیا پولیس اہلکاروں سے کیسے واپس لیں؟

ایف آئی اے کا ایک تفتیشی اہلکار شہری کا فون واپس کرنے کے بجائے حیلے بہانے کرتا رہا (فائل فوٹو: ایف آئی اے)
وقاص علی کی عمر 24 برس کے قریب ہے۔ وہ اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں۔ 
اُن کی زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی، لیکن چند ماہ قبل اچانک ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ایک شکایت پر انہیں گرفتار کر لیا۔ 
وقاص نے ایک رات حوالات کی سلاخوں کے پیچھے گزاری اور اگلے روز عدالت سے ضمانت حاصل کر لی۔
ان کی رہائی بظاہر تو آزاد فضا میں سانس لینے جیسا لمحہ تھی، مگر حقیقت میں اُن کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔ 
اُن کے پاس موجود قیمتی موبائل فون، شناختی کارڈ، بینک کارڈز اور دیگر ذاتی اشیا ایف آئی اے نے اپنی تحویل میں لے لی تھیں۔
وقاص نے کئی مرتبہ ایف آئی اے کے دفتر جا کر اپنے سامان کی واپسی کا مطالبہ کیا، تاہم تفتیشی افسر کی جانب سے ہر بار یہی جواب ملا کہ ’آپ کا موبائل فون فورینزک کے لیے بھیجا گیا ہے، ابھی نہیں مل سکتا۔‘ 
چند ہفتے گزرنے کے بعد وقاص کو ایف آئی اے کے اندر سے معلوم ہوا کہ درحقیقت اُن کا فون فورینزک کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا، یعنی جان بوجھ کر اُنہیں گمراہ کیا جا رہا تھا۔
یہ قصہ نہ تو منفرد ہے اور نہ ہی حیرت انگیز، کیونکہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں شہری پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں۔
گرفتاری کے بعد اُن کی جیب میں موجود نقدی، موبائل فون، شناختی کارڈ، بینک کارڈز اور دیگر اشیا ضبط کر لی جاتی ہیں۔ 
جب یہ افراد ضمانت پر رہا ہو کر واپس آتے ہیں تو انہیں ان اشیا کی واپسی کے لیے عدالت سے ’سپرداری‘ کرانا پڑتی ہے جو کہ ایک باضابطہ قانونی عمل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایف آئی اے یا پولیس کا اہلکار اکثر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر قیمتی اشیا، خاص طور پر موبائل فون یا نقد رقم واپس کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ 
بعض صورتوں میں سامان مکمل یا جُزوی طور پر واپس کر دیا جاتا ہے اور باقی اشیا کی واپسی کے لیے تاخیر، بے پروائی یا جھوٹ پر مبنی جواب دیا جاتا ہے۔

پولیس نے کشمیری نوجوان کو کچھ رقم واپس کی اور کہا کہ باقی پیسے خرچ ہو گئے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شہری چونکہ بار بار عدالتوں کے چکر لگانے سے گھبراتے ہیں اور مہنگے وکیلوں کا خرچ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، اس لیے ان کی اکثریت صبر شکر کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے اویس احمد بھی ایک ایسے ہی شہری ہیں۔ اسلام آباد میں ایک ناکے پر پولیس نے اُن سے پوچھ گچھ کی اور آوارہ گردی کے تحت اُن کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
اویس نے عدالت سے ضمانت حاصل کی اور اپنے وکیل کے ذریعے موبائل فون اور دیگر اشیا کی واپسی کے لیے باقاعدہ درخواست دائر کی۔
تاہم پولیس نے سامان واپس کرنے کے بجائے حیلے بہانوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعد میں اویس کو کچھ رقم واپس کی گئی اور باقی کے بارے میں یہ کہہ دیا گیا کہ ’وہ خرچ ہو گئی ہے۔‘
قانون کے مطابق جب کوئی فرد گرفتار ہوتا ہے تو اس کا سامان اس وقت تک ضبط رکھا جا سکتا ہے جب تک وہ تفتیش کے لیے ضروری ہو۔ 
اگر تفتیش مکمل ہو چکی ہو یا سامان کا کیس سے کوئی تعلق نہ ہو تو عدالت اس سامان کی واپسی کا حکم دے سکتی ہے۔ 
پاکستان کے ضابطہ فوجداری کی دفعات 516-A اور 523 کے تحت اگر عدالت مطمئن ہو جائے کہ ضبط شدہ سامان کی واپسی تفتیش میں خلل نہیں ڈالے گی تو وہ اُس کی سپرداری کی اجازت دے سکتی ہے۔

عدالتی حکم کے باوجود سامان واپس نہ کرنے والے اہلکار کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر ہو سکتی ہے (فائل فوٹو: پِکس ہیئر)

تاہم حقیقت یہ ہے کہ عدالت سے حکم ملنے کے باوجود بھی بعض اہلکار سامان واپس نہیں کرتے اور عدالت کے حکم کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو قانوناً توہینِ عدالت کے زُمرے میں آتا ہے۔
اس صورت میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اکثر شہریوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان زیادتیوں کے خلاف کہاں اور کیسے فریاد کریں۔ 
وہ صرف اس امید پر اداروں کے چکر لگاتے رہتے ہیں کہ شاید اگلی بار ان کا سامنا کسی دیانت دار افسر سے ہو جائے، حالانکہ پاکستان میں ایسے ادارے موجود ہیں جہاں شہریوں کی ان شکایات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ 
وکیل محمد شعیب کے مطابق ’اگر کسی شہری کو عدالت سے سپرداری کا حکم مل چکا ہو، لیکن پولیس یا ایف آئی اے اس پر عمل نہ کرے تو وہ ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ 
اس کے علاوہ متعلقہ افسران کو محکمانہ شکایت کی جا سکتی ہے، یا ایف آئی اے کے معاملے میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔‘ 
ان کے مطابق ’قانون شہریوں کو تحفظ دیتا ہے، بس عوام کو اس کے استعمال کا شعور ہونا چاہیے۔‘
پاکستان میں موجود وفاقی محتسب کا ادارہ بھی شہریوں کو اس طرح کی بدانتظامی کے خلاف تحفظ دیتا ہے۔ اگر پولیس یا ایف آئی اے سامان واپس نہیں کر رہی، تو متاثرہ فرد mohtasib.gov.pk پر آن لائن شکایت درج کرا سکتا ہے۔

پولیس اہلکار اکثر قیمتی موبائل فون یا نقد رقم واپس کرنے سے انکار کر دیتے ہیں (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)

وفاقی محتسب کا دفتر متعلقہ ادارے سے جواب طلب کر کے کارروائی کر سکتا ہے۔ اسی طرح نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (NCHR) بھی ایک مؤثر ادارہ ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی، بدسلوکی یا شہری آزادیوں کی خلاف ورزی پر شکایت درج کی جا سکتی ہے۔ کئی کیسز میں ان اداروں نے پولیس اہلکاروں کو جواب دہ بنایا ہے۔
ماہرین کے مطابق عدالت سے رجوع کرنا بھی ایک مؤثر راستہ ہے۔ اگر عدالت کی جانب سے ’سپرداری‘ کا حکم ملنے کے باوجود پولیس یا ایف آئی اے سامان واپس نہیں کر رہی، تو متاثرہ فرد ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر سکتا ہے۔
عدالت ایسے معاملات میں فوری نوٹس لیتی ہے اور ریاستی ادارے کو قانون کے دائرے میں لا کر جواب دہ بناتی ہے۔
سماجی کارکن ثوبیہ شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ قانون اور آئینی تحفظات موجود ہیں، لیکن ان کے مؤثر نفاذ کے لیے شہریوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔‘
’اگر شہری خاموشی اختیار کرنے کے بجائے قانونی راستہ اپنائیں اور اِن اداروں کو جواب دہ بنائیں تو نہ صرف ان کا ذاتی نقصان پورا ہو سکتا ہے بلکہ نظام میں بھی اصلاح کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔‘

 

شیئر: