پیکا ایکٹ کا ’اندھا دھُند‘ استعمال: ’اسی بات کا ڈر تھا جو اب ہو رہا ہے‘
پیکا ایکٹ کا ’اندھا دھُند‘ استعمال: ’اسی بات کا ڈر تھا جو اب ہو رہا ہے‘
بدھ 26 مارچ 2025 6:52
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
صحافی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’ہمیں قانون سے نہیں بلکہ اس کے غیر قانونی استعمال سے مسئلہ ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حال ہی میں ’نئے سرے‘ سے منظور کیے جانے والے پیکا ایکٹ کے بے جا استعمال نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ اب اس قانون کے غیر ضروری استعمال کو کیسے روکا جائے گا۔
پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ایک ٹریفک وارڈن کی لفٹر سے گاڑی اُٹھانے کی ویڈیو کو شہری کی جانب سے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر شہری کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ٹریفک وارڈن کی طرف سے مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ ویڈیو پھیلانے سے پولیس کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
الزام کی یہ نوعیت 2016 میں پاس کیے گئے پیکا ایکٹ میں نہیں تھی جبکہ حال ہی میں کی گئی ترمیم کے بعد اب اس قانون کا اطلاق ہر اس چیز پر بھی کیا جا سکے گا جس میں انٹرنیٹ کے استعمال کو کوئی بھی ریاستی ادارہ اپنی تشریح کے مطابق جُرم تصور کرے گا۔
ایک طرف پولیس اس نئے ترمیمی ایکٹ کے تحت ایف آئی آرز درج کر رہی ہے اور اب تک دو درجن سے زائد ایسے مقدمے درج ہو چکے ہیں جن میں حکومتی یا ریاستی شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب ایف آئی اے نے حال ہی میں اس ترمیمی ایکٹ کے بعد 15 مقدمات درج کیے ہیں جن میں 50 افراد کو طلبی کے نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔
جن افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ان میں استاد اور گلوکار تیمور رحمان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’کتنی بے وقوفانہ بات ہے کہ مجھے ایف آئی اے نے 26 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔‘
تیمور رحمان کے مطابق ’ایک ایسے شخص کی درخواست کو اہمیت دی گئی ہے جس کو میں جانتا تک نہیں، اور جس موضوع پر میں نے سوشل میڈیا پر بات کی تھی اس میں کسی کا نام بھی نہیں لیا گیا۔ وہ ایک دانشورانہ بات تھی اور یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے۔‘
لاہور پریس کلب کے سیکریٹری زاہد عابد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہی تو وہ صورت حال تھی جس خدشے کا اظہار صحافی تنظیمیں کر رہی تھیں۔‘
ایف آئی اے نے ترمیمی ایکٹ کے بعد 15 مقدمات درج کر کے 50 افراد کو طلبی کے نوٹسز جاری کیے (فائل فوٹو: ایف آئی اے)
’ہمیں قانون سے نہیں بلکہ اس کے غیر قانونی استعمال سے مسئلہ ہے۔ لاہور پریس کلب اپنے موقف پر کھڑا ہے کہ اس قانون کو درندے کے دانت دے کر بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔‘
’ہمارا تو خیال تھا کہ شاید یہ قانون صرف ریاستی اداروں کو مزید طاقت دینے کے لیے بنایا جا رہا ہے، لیکن اب جس طرح کا استعمال سامنے آرہا ہے یہ تو اس سے بھی خطرناک ہے جس کی توقع ہمیں تھی۔‘
زاہد عابد کا مزید کہنا تھا کہ ’ویسے تو اس ترمیم میں کئی باتیں اوسان خطا کرنے والی ہیں لیکن یہ بات جس میں کوئی بھی شخص جس کے کسی بھی وجہ سے کوئی بھی جذبات مجروع ہوں وہ کسی کے خلاف بھی مقدمہ درج کروا سکتا ہے۔‘
’یعنی اس شخص کا براہِ راست متاثرہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ تو دیومالائی معاملہ ہے۔ اب سوشل میڈیا پر باغِ جناح کی تصویریں لگانے کے علاوہ اور کچھ پوسٹ کرنا ممنوع بنا دیا گیا ہے۔‘
حکومت نے اس قانون کی منظوری کے بعد صحافتی تنظیموں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے تحفظات سننے کی بات کی تھی، تاہم اس کی کوئی قابل عمل صورت حال سامنے نہیں آئی۔ سیکریٹری لاہور پریس کلب کا کہنا ہے کہ ’وہ صرف سیاسی نعرہ تھا۔ قانون بنانے کے بعد کون مشاورت کرتا ہے۔‘
اس معاملے پر وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ سے رابطہ کیا گیا مگر وہ دستیاب نہیں تھے۔ اسی طرح پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بھی کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔