Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور انڈیا کی جنگ: سیاست میں کیا کچھ بدل جائے گا؟ عامر خاکوانی کا کالم

افواج پاکستان نے نہ صرف اپنا بلکہ اپنی قوم اور ملک کا سر بلند کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان اور انڈیا کا چند روزہ ٹکراؤ یا جنگ کا فیز ختم ہوا، سردست کسی دوسرے معرکے کا فوری امکان نہیں۔ دونوں سائیڈز پھر سے ری گروپ اور منظم ہوں گی۔ کچھ کرنا بھی ہوا تو نئی تیاری اور نئے انداز سے ہو گا۔
تاہم بعض واقعات اتنے معمولی نہیں ہوتے کہ وہ ایسے بادلوں کی طرح ہوا میں اڑتے ہوئے گزر جائیں۔ وہ اگر چھو بھی لیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ انڈیا کے بارے میں بھی کبھی تجزیہ کریں گے، تاہم پاکستان میں اب خاصا کچھ بدل جائے گا۔ تین چار چیزیں ایسی ہیں جن کو شاید اب روکنا یا بدلنا آسان نہیں ہو گا۔ حالات اور واقعات کا منطقی سفر چیزیں اسی طرف لے جا رہا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سرخرو ہوئی ہے

اس پورے واقعے میں افواج کا جو کام تھا، وہ انہوں نے کمال مہارت اور نہایت عمدگی سے کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنا بلکہ اپنی قوم اور ملک کا سر بلند کیا۔
کروڑوں پاکستانیوں کا اپنے ملک اور اداروں پر اعتماد بحال کیا۔ اوورسیز لاکھوں پاکستانیوں کو بھی سرخ رو، خوش اور آسودہ کیا۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی یہ کہہ رہے ہیں کہ طویل عرصے بعد وہ سر اٹھا کر چل پا رہے ہیں، جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں وہ زیادہ معتبر اور پراعتماد انداز سے بات کر سکتے ہیں۔ بہت جگہوں پر تو پڑھے لکھے گوروں نے بھی ان پاکستانیوں کو مبارک باد دی۔
یہ وہ فیلنگ ہے جس سے ہم پاکستانیوں کی نئی نسل بے خبر تھی۔ اگلے روز ایک بزرگ دانشور سے بات ہو رہی تھی، بھیگی آنکھوں سے انہوں نے بتایا کہ 16 دسمبر 1971 کے بعد اگلے کئی دنوں تک ان کے گھر میں آگ نہیں جلی اور وہ اس کے بعد کبھی پہلے جیسے پُراعتماد اور خود کو باوقار محسوس نہیں کر پائے۔ مئی کے ان چند دنوں نے یہ سب بدل دیا ہے۔ اس کا تمام تر کریڈٹ ہماری افواج پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے۔
دو دن قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے طلبہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اپنا کام نہیں کرتے۔ کیا ہم نے اپنا کام نہیں کیا؟ ڈی جی نے یہ کہا کہ نوجوان ان لوگوں کا محاسبہ کریں جو اپنی افواج کے خلاف بات کرتے ہیں۔
یہ اعتماد، یہ قوت اور لہجے کی یہ چمک دمک اس معرکے میں کامیابی کی مرہون منت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بجا طور پر اس کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔ اب وہ زیادہ قوت، اعتماد اور اخلاقی برتری کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

افواج پاکستان نے کروڑوں پاکستانیوں کا اپنے ملک اور اداروں پر اعتماد بحال کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تحریک انصاف کمزور پوزیشن پر چلی گئی

اپوزیشن جماعتیں خاص کر پاکستان تحریک انصاف اس پورے واقعے کے بعد زیادہ کمزور ہوئی ہے۔ اس کی عوامی حمایت کم ہوئی، اس کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوا اور ایک طرح کی سیاسی تنہائی بڑھی۔
تحریک انصاف نے بڑا سنہری موقع ضائع کیا۔ ان کو چاہیے تھا کہ جب پہلگام واقعے کے بعد انڈین حملے کا امکان پیدا ہوا، انہیں فوری طور پر اپنے سیاسی اختلاف عارضی طور پر ایک طرف رکھ کر ملک وقوم کی خاطر افواج پاکستان کے ساتھ غیرمشروط طور پر کھڑا ہو جانا چاہیے تھا۔ ایسا کرنے میں قدرے کوتاہی ہوئی۔
تحریک انصاف کے بعض مرکزی رہنماؤں نے اگرچہ مثبت بیانات دیے ، بعد میں عمران خان نے بھی مثبت بیان دیا، مگر پارٹی کارکنوں اور سوشل میڈیا واریئرز نے اپنے منفی طرزعمل، طنزیہ پوسٹوں اور تمسخرانہ کمنٹس سے وہ امپیکٹ نہیں بنایا جو بن سکتا تھا۔
تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نقصان پاکستان سے باہر بیٹھ کر ولاگ کرنے والے صحافیوں، بلاگرز وغیرہ سے پہنچ رہا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ پارٹی حلقوں اور کارکنوں میں بہت مقبول ہیں، انہیں توجہ سے سنا جاتا ہے، مگر ان سب میں بوجوہ اس قدر تلِخی، ناراضی اور جھنجھلاہٹ بھری ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ یا پاکستانی حکومت کے لیے کچھ بھی اچھا کہنے کو تیار نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کو سب سے زیادہ نقصان پاکستان سے باہر بیٹھ کر ولاگز کرنے والے صحافیوں، بلاگرز وغیرہ سے پہنچ رہا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

باہر بیٹھے یہ لوگ اپنے ذاتی مسائل اور غصے سے اوپر اٹھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ تحریک انصاف کے لیے مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے بعض خود کو پارٹی ترجمان سے کم نہیں سمجھتے اور مختلف پالیسی ایشو پر اپنی ڈکٹیشن دینے پر مصر رہتے ہیں۔ یہ سب پاکستان اور انڈیا کے ٹکراؤ میں تاریخ کی غلط سمت اور غلط جگہ پر کھڑے تھے۔ ان کے طرزعمل اور ان کے ولاگز، سوشل میڈیا پوسٹوں کا نقصان تحریک انصآف کو پہنچا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے ’کی بورڈ واریئرز‘ اور نوجوان تب متحرک ہوئے جب پاکستان نے انڈیا کو جواب دیا اور ان کے فضائی اڈے تباہ کر دیے۔ تب یہ سب ایسے پُرجوش ہوئے کہ بے تہاشا پوسٹیں حمایت میں کر ڈالیں۔ یہ سب مگر دیر سے اور بے فائدہ تھا۔ حکومتی وزرا نے رسمی طور پر اسے سراہا، مگر تحریک انصاف یہی سب کچھ اگر پانچ سات دن قبل کرتی تو پورا منظرنامہ ہی مختلف ہوتا۔ آج وہ بھی فاتح ہوتے۔
مجھے یوں لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے لیے اب سیاسی مشکلات بڑھیں گی۔

حکمران سیاسی اتحاد کی قوت بڑھ گئی

حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹے گروپ بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ ان کے اقتدار کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ اگر کہیں موہوم سا امکان تھا کہ الیکشن اس برس کے اینڈ میں ہو جائیں گے، وہ بھی اب ہوا میں تحلیل ہو گیا۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹے گروپ بھی مضبوط ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی سیاست بہت ہی غیریقینی اور ناقابل اعتبار ہے، لیکن بظاہر اگلے دو برسوں کے لیے الیکشن کا امکان نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ پنجاب میں، پیپلز پارٹی سندھ میں زیادہ مضبوط ہو گی۔ اس کا بھی امکان نظر آ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو شاید وفاقی کابینہ میں حصے دار بنایا جائے۔ بلاول بھٹو کو بیرون ملک سفارت کاری کے حوالے سے اہم ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ بلاول کو پھر سے وزارت خارجہ میں لے آنے کا سبب بن جائے۔
تحریک انصاف کو شاید خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت چلانے دی جائے، مگر اس کے لیے وزیراعلیٰ کو نرمی اور مصالحت سے کام لیتے رہنا ہو گا۔ خان صاحب اگر چاہتے ہیں کہ جنید اکبر کو ذمہ داریاں سونپ کر کوئی زوردار احتجاجی تحریک وہاں چلائیں تو فی الحال اس کا امکان نہیں۔ اگلے تین چار مہینے ویسے بھی شدید گرمی کے ہیں جن میں تحریک تو درکنار جلسہ تک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بلوچستان میں ہلچل ہو گی

بلوچستان میں خاصا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ وہاں اب عسکریت پسندوں سے منظم انداز میں نمٹا جائے گا۔ جس سے بات ہو سکی، اسے انگیج اور قتل و غارت کرنے والے شدت پسندوں کا صفایا کیا جائے گا۔ اگر یہ سب کیا گیا اور اس کے ساتھ سیاسی مفاہمت، مصالحت کا معاملہ بھی چلا تو پھر شاید بلوچستان میں کوئی وسیع البنیاد سیٹ اپ بنے اور کوئی بلوچ قوم پرست اہم منصب حاصل کر لے، مگر یہ سب آگے کی باتیں ہیں۔ پہلے مرحلے میں تو شدت پسندوں کو کمزور کیا جائے گا تاکہ وہاں کسی ممکنہ پراکسی وار کو روکا جا سکے۔

بلوچستان میں خاصا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ وہاں اب عسکریت پسندوں سے منظم انداز میں نمٹا جائے گا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بلوچ عسکریت پسندی کو مانیٹر کرنے والوں کا خیال ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک محاذ جنگ سے ناکامی کے بعد اپنا تمام تر ذور پراکسی وار پر لگائے گا۔ اس پراکسی وار کو روکنے کے لیے اب جامع پلان بنایا جا رہا ہے، بیک وقت کئی آپشنز پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔

 

شیئر: