صحرا کی خشک ہوا اس کی پہلی نشانی اپنے دوش پر سوار کر کے لاتی ہے۔ پھر دائروں میں آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھتے ہوئے دھوئیں کی تیز مہک روح میں اترنے لگتی ہے۔
کبھی یہ دھواں، دُور صحراؤں کی طرف جا نکلتا ہے اور انھیں معطر کرتا ہے۔ کبھی کھڑکیوں سے گھروں کے آنگنوں کو خوشبو سے بھر دیتا ہے، کبھی آپ کے کپڑوں سے لپٹ جاتا ہے تو کبھی جسم کے ساتھ یوں چپک جاتا ہے جیسے اسی کا حصہ ہو۔
مزید پڑھیں
-
نجران میں مٹی اور گارے سے بنے مکان جو ماضی کو حال سے جوڑتے ہیںNode ID: 884924
-
تاریخی مقامات کے تحفظ کے لیے سعودی عرب کی کوششیں قابل تعریفNode ID: 885289
عرب نیوز میں شائع مضمون کے مطابق ایک وقت تھا کہ نجران خوشبوؤں کا مرکز تھا۔ یہ خوشبوئیں آج بھی وہاں کے درودیوار کو مہکاتی ہیں۔ نجران کی گلیاں آج بھی اسی خوشبو کو گنگناتی ہیں۔ یہ خوشبو نجران کی ایک گہری یاد ہے،اتنی گہری جسے جتنی بار بھی دھو لیں، نہیں جاتی۔
نجران کے قدیم شہر میں سورج کی روشنی سے بھیگی ہوئی تنگ راہیں، مٹی کی اینٹوں سے بنے ان میناروں کے ارد گرد گھوم رہی ہیں جن پر منقش نفیس نمونے اپنی دلکشی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ عمارتیں ایک دوسرے کی جانب ایسے جھکی ہوئی ہیں جیسے بزرگ، راز و نیاز کر رہے ہوں۔ ان کی دیواروں کو چُھو لیں تو لمس سے ٹھنڈک کا احساس نہیں جاتا۔ سونگھ لیں تو راکھ کی ہلکی سے مہک اور مٹی کی بھینی خوشبو آپ کے ساتھ ہو لیتی ہے۔
شہر کے ایک سرے پر الاخدود شہر کے کھنڈرات ہیں جو خاموشی کی تہیں کھول رہے ہیں اور ان خندقوں کی کہانی بیان کر رہے ہیں جو صدیوں تک یہاں کھودی جاتی رہیں۔ بھٹیوں کی چمنیوں سے نکلنے والی کالک نے جن پتھروں کے نصیب سیاہ کر دیے ہیں، ان کے دلوں پر آج بھی آگ کے نشان باقی ہیں۔

یہاں ٹکٹ ہے نہ ٹکٹ خریدنے کے لیے کوئی بُوتھ ، اور یہاں کے راستے، آنے والوں کی راہ تک رہے ہیں۔ یہاں کبھی کبھی ہوائیں لہراتے اور بل کھاتے ہوئے ان ٹوٹے ہوئے پتھروں کو چھُوتے ہوئے ان کے آر پار ہوتی رہتی جیسے ان کے لمس سے جان پہچان پیدا کر رہی ہوں ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں کبھی بدنام قتلِ عام ہوا تھا۔۔۔ وہی قتلِ عام جس کی طرف قرآنِ پاک نے اشارہ کیا ہے۔
اب یہاں بکریاں گھاس چرتی ہیں۔ اور ایک لڑکا ایک دیوار سے ٹیک لگائے اپنے فون کو دیکھ رہا ہے۔ وہی دیوار جس نے یہاں اقتدار کی شاہ و شکوہ کو بلند ہو کر آسمانی رفعتوں تک پہنچتے اور پھر منہ کے بل گرتے دیکھا ہے۔
یہاں تاریخ کو نیند نہیں آتی۔ یہ دبے دبے انداز میں آپ کے پاؤں تلے چھپا ہوا ماضی کا کوئی نہ کوئی قصہ سنانے کی کوشش کرتی ہے۔

شہر میں اور اندر کو چلیں جائیں تو جمعرات کو لگنے والی مارکیٹ، ڈھول کی تھاپ کی طرح گونجنے لگتی ہے۔ ماضی کی تمنکنت اور وقار، آج کی دھک دھکاتی زندگی کے لیے راہ بناتے چلے جاتے ہیں۔
چاندی کے بنے جنبیہ خنجر سٹالوں پر چمک رہے ہیں، خشک کھجوریں سورج کی کرنوں کی روشنی پا کر دمک رہی ہیں۔ نیلے اور گہرے زعفرانی رنگ کے کپڑوں کو، اس شہر کی ہوائیں لہرا رہی ہیں۔ ایک دکاندار، ادرک والی کافی سے بھرا ہوا پتھر کا بنا ہوا چھوٹا سا کپ آپ کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔
اس کا ذائقہ اور خوشبو دونوں ہی تیز ہیں۔ پہلا سِپ آپ کی زبان کو جیسے کاٹ سا لیتا ہے اور ایک ناقابلِ بیان حدت آپ کے سینے میں جنم لینا شروع کر دیتی ہے۔ یہ احساس آپ کو جھنجوڑ کر کسی اور دور کی یاد دلانے لگتا ہے۔

مارکیٹ کے بعد آلعان محل ہے۔ مٹی سے بنے اس کے مینارے شام کی روشنی میں چمک رہے ہیں جیسے کسی دوسرے عہد میں دیکھا گیا کوئی خواب ہو۔
اس محل کی تنگ سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو سانس کم پڑنے لگتی ہے اور چھت پر پہنچ کر تو دم، رک سا جاتا ہے۔
نیچے دیکھیں تو کھجور کے کھیت ایسے نظر آتے ہیں جیسے کسی نے زمین کے کناروں کو سبز لیس سے ٹانک دیا ہو۔ آگے دیکھیں تو طویق کا کٹاؤ، ڈوبتے آفتاب کے پہلو میں سُرخ شعلہ بن کر بھڑکتا نظر آتا ہے۔ یہاں عظمت و جلال بھی حاوی ہے۔۔۔یہاں سکُوت بھی طاری ہے۔
وادیِ نجران کو دیکھنے کے لیے آپ کو بائیسکل کرائے پر مل جائے گی۔ پہلے پہل تو یہ پتھروں سے بنے راستے پر آسانی سے چلے گی لیکن اس راہ کا خاتمہ ریت پر ہوگا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں نجران کی وادی اپنے دامن کھول کر آپ کے سامنے رکھ دے گی۔

آپ کو یہاں کے منظر میں بے پایاں وسعت نظر آئے گی، پتلی پتلی چٹانیں روشنی سے جمگامگا رہی ہوں گی۔ قریب ہی کوئی گڈریا بکریوں کو لے جا رہا ہوگا جس کی آواز، ہوا کی شائیں شائیں میں دب کر کمزور پڑ رہی ہو گی اور اسے اونچا بولنا ہوگا۔
یہاں گرمی بہت ہے۔ بائیسکل پر سفر مشکل ہو جاتا ہے۔ زمین آپ کو یہ دعوت نہیں دیتی کہ آپ اسے فتح کر لیں بس اتنی کہ آپ اسے غور سے دیکھیں۔
پتہ ہی نہیں چلتا کہ چپکے چپکے شام کب آگئی۔ اب ہوا میں مٹی اور خشک پتوں کی بُو ہے۔ نگاہ جب دُور اٹھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ آسمان نیلے رنگ کی بجائے ارغوانی ہوگیا ہے۔ افق کے پیچھے، ہر چیز سنہری ہوتی چلی جاتی ہے۔

نجران آپ کی یاد میں ہی نہیں رہ جاتا۔۔ یہ آپ کی حسِیات میں سما جاتا ہے۔ ادرک کی خوشبو، کٹے ہوئے پتھروں کا سکوت، خوشبوؤں کا دھواں اب آپ کی شرٹ میں جگہ بنا چکا ہے۔ نجران وہ شہر نہیں جہاں آپ آتے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جسے آپ اپنے ساتھ واپس لے جاتے ہیں۔
کچھ دن نجران میں گزاریے۔ اس شہر کو آرام سے اپنے آپ میں داخل ہونے دیجیے۔ اس کی تنگ گلیوں میں گھومیے، یہاں کی چائے پیجیے، دھوئیں کی مہک کا لطف اٹھائیے اور یہاں کے سکوت کو سنیے۔ آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ آپ صرف نجران جاتے نہیں ۔۔۔۔ آپ نجران کو یاد رکھتے ہیں۔