Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبدیلی، ملکی نظام میں نہ آسکی، عیدوں میں تو آگئی

ماضی میں والدین کی توجہ بچوں کی عید پر ہوتی تھی،’’ جدید مائیں‘‘ بچوں سے زیادہ اپنی تیاری میں دلچسپی رکھتی ہیں
* * * * *صبیحہ خان۔  ٹورانٹو* * * * *
ہمارے ملک کے نظام میں تبدیلی آئی یا نہیں آئی ، یہ تو تاحال واضح نہیں ہو سکا تاہم ہمارے ماضی اور حال کی عیدوں میں تبدیلی ضرورآچکی ہے ۔ جدید دور ہے چنانچہ انداز بھی نئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ پرانے طریقے اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ جہاں دیگر معاشرتی اقدار تبدیل ہوئی ہیں، وہیں عید منانے کا انداز بھی بدل گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عید کارڈ کے بغیر عید کا مزہ نہیں آتا تھا، لوگ عزیز ، رشتہ داروں، دوستوں کو عید کارڈ ضرور بھیجا کرتے تھے۔ اپنے ذوق کے مطابق کارڈ خریدتے اور ان کارڈز کے ساتھ عید کی مبارکباد کیلئے جذبات کا اظہار بھی کرتے۔ عید میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کا چیدہ چیدہ اظہار ذیل میں کیاجا رہا ہے:
٭٭جب سے انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں شامل ہوا ہے ،ا س نے ایک جانب اگر ان گنت سہولتوں سے نواز دیا ہے تو دوسری جانب بعض مسرتوں کا خاتمہ بھی کر دیا ہے مثلاً آج کے اس ا نٹرنیٹ دور میںڈاک سے آنے والے عید کارڈز کا مزہ ہی ختم ہوگیا ہے۔
٭٭ اسی طرح عید پر نئے کپڑوں جوتوں کی وجہ سے ہونے والی خوشی بھی ناپید ہوچکی ہے جو ماضی کی عیدوں میں بے انتہاء پائی جاتی تھی۔ لوگ سارا سال کپڑوں کی شاپنگ کرتے نہیں تھکتے تھے ۔
٭٭ماضی میں والدین کی پوری توجہ صرف اپنے بچوں کی عید کی تیاری پر مرکوز ہوتی تھی مگر اب’’ جدید مائیں‘‘ بچوں سے زیادہ اپنی تیاری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
٭٭ماضی میں عید پر رشتہ داروں، دوستوں کی دعوت گھر پر ہوتی تھی مگر اب عید ملن پارٹیاںموسمِ عید کا لازمی جزو ہیں جن کا اہتمام ہوٹلوں اور لانز میں ہوتا ہے۔
٭٭ پہلے سویاں عید پر سب سے زیادہ اہم ہوتی تھیں مگراب لوگ عید کیک بنواتے ہیں۔ عید کا ایک لازمی عنصر عیدی ہوتا تھا ، تھوڑی عیدی لے کر بھی بچے خوشی سے اچھل رہے ہوتے تھے مگر اب عیدی مقابلہ بازی کا ذریعہ بن گئی ہے ۔ اس میں بھی نفع نقصان کا حساب رکھاجاتا ہے۔
٭٭ماضی میں چاندرات کی دھوم دھام دیکھنے کو ملتی، سب سے پہلا مرحلہ چاند دکھائی دینے کا ہوتا۔ چاند کو بھی عید کے حوالے سے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا تھااس لئے وہ بھی بادلوں کی اوٹ میں چھپ کر زمین کے باسیوں سے خوب آنکھ مچولی کرتاتھا۔ آسانی سے اپنا جلوہ نہیں دکھاتاتھا۔ ہلال کمیٹیاں بٹھائی جاتیں ، ہرکمیٹی اپنے اپنے علاقے کا الگ الگ چاند دیکھتی ۔ یوںالگ الگ چاند دیکھنے کے نتیجے میں عید بھی الگ الگ منائی جاتی کہ اتحاد اور یکجہتی کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ چاند، زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ چاند نہ ہوتا تو عید کا پتہ کیسے چلتا۔ شادیاں کیسے ہوتیں،مائیں چاند جیسی بہوئیں کیسے تلاش کرتیں۔ بچے چندا ماما سے فرمائشیں کیسے کرتے؟ شاعروں کی غزلیں بھی کتنی روکھی پھیکی اور بدمزہ ہوتیں کیونکہ وہ چاند جیسے محبوب کے ذکر سے خالی ہوتیں۔ کتنے ہی فلمی گانے چاند کے مرہون منت ہیں جیسے: *مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کیسی خوشی لے کے آیا چاند
 عید کا
بہت سے لوگ چاند سے پیغام رسانی کا کام بھی لیتے تھے مثلاً:
  اے چاند اُن سے جاکر میرا سلام کہنا
* جہاں چاند دید کا بہانہ ہے وہیں کئی گھروں میں فساد کا باعث بھی بنتاہے۔ چاند سے وابستہ محبت کے جذبے نے اردو زبان کو کئی نئے الفاظ، ضرب الامثال ، محاورے، استعارے، تشبیہات، نظمیں اور غزلیں وغیرہ بھی دی ہیں۔ چاند کا لفظ دوسری کئی چیزوں کیلئے بھی استعمال ہوتاہے جیسے کسی گنجے یا بالوں سے محروم شخص کو دیکھ کر کہا جاتا ہے کہ اس کی چندیا دیکھو ،چاند کی طرح چمک رہی ہے۔ چاند کا لفظ حسن کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ 99 فیصد مائیں اولاد کے حوالے سے آنکھیں بند کرکے ناانصافی کرنے سے نہیں ہچکچاتیں۔ اسی لئے وہ اپنے کالے کلوٹے بچے کو بھی چاند کا ٹکڑا کہہ کر صدقے واری جاتی ہیں کیونکہ بچہ کالا ہو یا گورا، ماں کو تو چاند ہی دکھائی دیتا ہے۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کو ان کے بڑوں کی جانب سے اسی طرح کی دعائیں دی جاتی ہیں کہ آپ کو چاند سی بیٹی یا بیٹا عطا ہو۔
کنواروں کو چاند سی دلہن اورکنواریوں کوچاند سا دولہا ملنے کی آس دلائی جاتی ہے۔ خواتین کو چاند رات بہت پسند ہوتی ہے اس لئے وہ سارے کام چھانٹ کر چاند رات کیلئے جمع کرکے رکھتی ہیں۔ اس لئے جب بیگم اپنے ’’اُن‘‘کو بازار چلنے کیلئے کہتی ہیں تو وہ بلاچون و چرا بلکہ ہنسی خوشی تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ بھی ’’تفریح ‘‘ کر لیتے ہیں۔ چوڑیاں اور مہندی چاند رات کی خاص سرگرمیاں شمار ہوتی ہیں۔ اس رات خواتین کے بیوٹی پارلرز میں بھی ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے کیونکہ وہاں عورتیں بالوں کی کٹائی، رنگائی اور فیشل جیسے جمالیاتی ہتھکنڈوں سے لیس ہورہی ہوتی ہیں اور پھر اسی انداز سے دھڑا دھڑ بیوٹی پارلرز سے چاند برآمد ہوکر علاقے میں بکھرے رہتے ہیں۔ان کی سج دھج دیکھ کر چاند بے چارابھی شرما جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ کاش ! میں بھی کسی بیوٹی سیلون کا چکر لگا لیتا تو اپنے داغ ،میک اپ کی تہہ میں چھپا لیتا۔ عید کی آمد جہاں خوشیوں کے رنگ بکھیرتی ہے، وہیں مردوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ تنخواہ کے ساتھ عیدی الاؤنس بھی مل جائے تاکہ چاند رات کو بیگمات کو شاپنگ کراکے خوش کرسکیں حالانکہ یہ ناممکن ہے۔ اس طرح بیٹیوں کے والدین کو چاندر ات کو یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کو سسرال عیدی بھیجنا ہوگی۔ ایسا نہ ہو کہ ان کوسسرال والے طعنے دیں۔ جس طرح پوری دنیا سپر پاور سے ڈرتی ہے اس طرح بیٹیوں کی مائیں ان کے سسرال والو ں سے ڈرتی ہیں۔ بہت سے شوہر حضرات اس موقع پر بڑی ہوشیاری دکھاتے ہیں۔وہ چاند رات کواپنے درجن بھر بچوں سمیت بیوی کو میکے چھوڑ آتے ہیں کیونکہ یہ موقع ایسا ہوتا ہے کہ جب لڑکی کو اپنا میکہ بہت یاد آتا ہے اور اس حربے سے بیوی بچوں کی فرمائش اور شاپنگ سے نجات مل جاتی ہے ۔ وہ چاند رات کو ٹھاٹ سے کسی سیلون میں اپنے بال او ر مونچھیں ترشوا رہے ہوتے ہیں کہ صبح کو وہ بھی سسرال جائیں گے اور ساس سسر کی خدمت میں عید کا سلام پیش کرکے عیدی وصول کریں گے۔

شیئر: