Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹوربس میں دوسری منزل بناکر سیٹیں لگا دی جاتی ہیں

ہم بھی تو ایساکر سکتے ہیں کہ بس یا منی بس کی چھت پر سیٹیں لگوا دیں
* * * *اُم مزمل۔جدہ* * * *
وہ’’ چھوٹی چائے تو لے کر آجاؤ‘‘ سنتے ہی ٹرے لیکر پہنچی اور کہنے لگی، بچپن کی ریل فلم کی طرح نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ آپ کے دوستوں شوکا، پاشا، لڈن، سڈن، فضلو، فجو، شمو اورنیرو وغیرہ سب کھیل میں مصروف رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کیسے وقت گزر گیا۔ آج سب ہی اپنی اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہیں۔ وہ کہنے لگا اب تو آپ اس طرح پکارے جانے پر بالکل نہیں برا منا تیں جبکہ کالج کی لیکچرر بن گئی ہیں ۔ ہم لوگوں نے تو کوئی خاص نہیں پڑھا لیکن ہاں محنت مزدوری سے جی نہیں چراتے۔
وہ پوچھنے لگی، کل نیرو آپ کے دوست سے کہاں میٹنگ ہوئی ہے۔ وہ افسردگی سے بتانے لگا کہ ہم سب محلے والوں میں فقط وہی تھا جس نے باہر جاکر اتنی بڑی ڈگری لی اور وہاں رہائش اختیار کی لیکن اسکی بات بالکل پسند نہیں آئی۔ مجھ سے کہنے لگا کہ تم نے کیوں ہر روز کی دہاڑی دینا مقرر کردیا ہے باہر کے ملکوں کی طرح والنٹیرنگ سسٹم متعارف کراتے تو تمہارے پیسے بھی بچ جاتے اور سکھانے کے بہانے کام بھی ہوتا رہتا۔ اس نے پوچھا کہ آپ نے کیا جواب دیا۔ وہ بتانے لگا، میں نے کہاکہ ’’ بزرگوں سے سنا ہے کہ مزدور کا محنتانہ اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘ پھرمیں دیر کیوں کروں اور بغیر محنتانہ کام لینا بھی ناانصافی ہے۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے چاہے اس عمل کا نام کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ رکھ لو کہ آج ہزار آورز والنٹیرنگ یعنی رضاکارانہ خدمات ،کل مستقبل میں جاب تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ وہ غصہ سے خاموش ہوگیا پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگا نیرو مجھے سمجھا رہا تھا کہ یہ جو تم نے اپنے خرچے پر بی ٹیک کا پروگرام شروع کررکھا ہے اور یونیورسٹی کی پڑھائی کومزدور کیلئے لازم کررکھا ہے، اس سے پیسہ صرف خرچ ہوگا کوئی مستقبل کا فائدہ نہ ہوگا۔
بھاری فیس کے بغیر کوئی یونیورسٹی ڈگری نہیں دیتی اور وہ مجھے یہ بھی سمجھا رہا تھا کہ اچھی طرح خدمت خلق کا طریقہ، چھان بین کرلو جس طرح تم نے بغیر پیسے کی یونیورسٹی کھول رکھی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے وسیع فوائد پر ضرب پڑتی ہو اور بیرون ملک کسی ایک اخبار میں اس کے متعلق ایک آرٹیکل چھپے اور یہاں چھاپا پڑ جائے ، ہتھکڑی پہناکر بغیر کسی ثبوت کے اسے میڈیا پر بار بار دکھایاجائے کہ فلاںتعلیمی ادارے کا مالک نہایت درجے کا فراڈ شخص تھا، اسکا یہی حشر ہونا چاہئے تھا۔ جب میں نے اس کمپنی کو جس کے ساتھ وہ یہاں آیا ہے، کہا کہ ہمارے یہاں گاڑی کے پارٹس صرف اسمبل ہوتے ہیں۔ آپ لوگ انجن ہمارے ملک میں ہی بنانا شروع کردو تو ہم اس کا م میں افرادی قوت کے ساتھ خرچ بھی اٹھائیں گے لیکن وہ کہنے لگے ،ہم یہ بھی تو کر سکتے ہیں کہ جو بس یا منی بس روڈ پر چلتی ہے مختلف روٹس پر، اس کی چھت پر چاروں اطراف لوہے کی اونچی جالی لگا دیں اور بس کی طرح ہی سیٹیں لگوا دیں جیسا کہ عالمی طور پر گھومنے کے لئے جانے والوں نے اس طرح کی ٹور بس سروس سے استفادہ کیا ہوگا جس کی پہلی اسٹوری تو عام بس کی طرح ہوتی ہے اور چھت پر پہنچنے کی طرح دوسری منزل بناکر سیٹیں لگا دی جاتی ہیں۔
سیاح بہتر طریقے سے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ وہ ٹوک کر کہنے لگی کہ آپ نے بتایا نہیں کہ ہم لوگوں نے اپنے شہر میں چلنے والی بسوں میں ایسی جالی لگاکر سیٹیں لگا لی ہیں، وہ اب نیا کیا کرکے دیں گے؟ اور جہاں تک ہماری یونیورسٹی کے بارے میں انکا شکوہ ہے کہ یوں مفت کی ڈگری بیچلر آف ٹیکنالوجی کی ،کیوں بانٹ رہے ہو، کسی وقت بھی لوگوں کی نظروں میں آجاؤ گے اور شامت آجائے گی، توان کو بتا دیں کہ وہ باہر کے ملک میں رہ کر آئے ہیں تو ان کے مفاد کی ہی باتیں کریں لیکن یہ تو صرف ہماری بستی کے ایک لاکھ لوگوں کیلئے ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جہاں گاڑیوں کے شعبے میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اصل میں تو وہ آپ کی گاڑی بنانے کے کارخانے میں پہلے سے ہی سب کچھ سیکھ لیتے ہیں ۔دراصل وہی انکا امتحان ہوتا ہے۔ باقی لکھائی پڑھائی اپنی قائم کردہ اجتماعیت کی بنیاد پر اس تعلیمی ادارے سے جہاں مختلف عالمی اداروں کے اساتذہ آکر تعلیم دیتے ہیں، مفت تعلیم دلانے کا کام کوئی ہم اکیلے تو نہیں کرسکتے ۔ اس کے لئے تو ہماری بستی کا ہر فرد اپنی طرف سے حصہ ڈالتا ہے اور یہ پرانی پنکچر شاپ والا چھوٹا اب آٹوموٹیو انجینیئر بن رہا ہے کہ اجتماعیت میں بڑی برکت ہے۔

شیئر: