Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال جہاں پرویز مشرف آج بھی مقبول ہیں، ’احسان کا بدلہ تو اتارنا ہے نا‘

’ووٹ تو جنرل مشرف کو ہی دیں گے کیونکہ انہوں نے ہم پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ بھی اتارنا ہے۔‘
یہ جواب چترال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سرگرم کارکن کا تھا جب ان سے میں نے 2013 کے عام انتخابات سے قبل سوال کیا کہ وہ ووٹ کس امیدوار کو دیں گے۔ 
اس سے ملتا جلتا جواب جماعت اسلامی کے ایک سرگرم کارکن کا تھا جن کے مطابق ’جنرل صاحب نے چترال کے کے لیے جو کچھ کیا ہے اس کے بدلے میں کم از کم ایک بار ان کو ووٹ دینا تو بنتا ہے۔‘
2013 کے انتخابات میں جنرل مشرف نے اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے پلیٹ فارم سے حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
جنرل مشرف نے قومی اسمبلی کی چار نشستوں سے انتخابات لڑنے کے لیے کاعذات نامزدگی جمع کرائے جن میں اسلام آباد اور کراچی سمیت چترال کا حلقہ بھی شامل تھا۔ 
چترال کے حلقے میں ان کے کوورنگ امیدوار شہزادہ افتخار الدین تھے۔ بعد میں جنرل پرویز مشرف کے کاعذات نامزدگی چاروں حلقوں سے مخالف امیدواوں کی جانب سے چیلینج کیے جانے پر مسترد ہوگئے تھے جس کی وجہ سے جنرل مشرف کی اے پی ایم ایل نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
پارٹی کی جانب سے بائیکاٹ کے باوجود چترال کی واحد قومی اسمبلی کی نشست اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے ایک پر جنرل مشرف کی جماعت اے پی ایم ایل کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ یہ سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی اس علاقے میں مقبولیت کا ثبوت تھا۔ 
جنرل مشرف کی مقبولیت کی وجوہات:
پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع اس علاقے میں جنرل مشرف کی متنازع شخصیت، اقدامات اور ایک سابق آمر ہونے کے باوجود انتہائی مقبولیت کے سوال پر سیاسیات اور سماجیات کے ماہر اور  لکھاری پروفیسر ممتاز حسین کہتے ہیں ’گو کہ ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناطے میں جنرل مشرف کو پسند نہیں کرتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ سابق فوجی حکمران چترال میں بہت مقبول ہیں اور لوگ ان کو پسند کرتے ہیں۔‘ 

لواری ٹنل کا منصوبہ پرویز مشرف کے دور میں مکمل ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مشہور ادیب، مصنف اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کا بھی کہنا ہے کہ پرویز مشرف چترال کے دونوں اضلاع میں نہ صرف بہت زیادہ مقبول تھے بلکہ ہیں اور رہیں گے۔ 
’ملک کے دیگر علاقوں کے برخلاف یہاں جنرل پرویز مشرف کا نام مقبول لیڈر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ چترال کے لوگ ان کا نام محبت سے، چاہت سے اور کسی حد تک عقیدت سے لیتے ہیں۔‘
لواری ٹنل کا منصوبہ:
تجزیہ کاروں کے مطابق چترال میں جنرل مشرف کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ لواری ٹنل کا منصوبہ ہے۔ 1977 سے لواری ٹنل کے منصوبے پر کام رکا ہوا تھا جس کو جنرل مشرف نے دوبارہ شروع کرایا۔ 
لواری ٹنل سے قبل چترال کا زمینی رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے چھ مہینے کے لیے منقطع ہو جاتا تھا۔ سردیوں میں اشیائے ضرورت اور دیگر اجناس چترل پہنچانا ناممکن ہوجاتا، اسی لیے شہری اور دوکاندار موسم سرما کی آمد سے قبل اگلے پانچ چھ مہینے کے لیے اجناس اور دیگر ضروریات زندگی سٹور کرتے تھے۔ 
سردیوں میں انتہائی اہم کاموں کے لیے چترال سے پشاور جانے کے لیے برف سے ڈھکے ساڑھے دس ہزار فٹ بلند  لواری پاس کو پیدل عبور کرنا پڑتا۔ اس دوران درجنوں افراد برفانی تودوں کی زد میں آکر یا فراسٹ بائیٹ کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ 
لواری ٹنل پر کام کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں شروع کرایا تھا لیکن آدھا کلومیٹر طویل ٹنل بننے کے بعد سنہ 1976 سے اس پر کام رکا ہوا تھا۔ 
تقریباً 11 کلومیٹر طویل ٹنل پر جنرل مشرف کے دور اقتدار میں 2006 میں کام شروع ہوا اور ٹنل ان ہی کے دور اقتدار میں مکمل بھی ہو گئی۔

چترال میں سنہ 2013 میں پرویز مشرف کے حق میں ریلی بھی نکالی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی

پروفیسر ممتاز حسین کہتے ہیں کہ ’لواری ٹنل چترالیوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا جس پر کام جنرل مشرف نے بہت اچھے طریقے سے شروع کرایا بلکہ ٹنل سے سفر ان ہی کے دور میں شروع ہوا۔‘
لواری ٹنل کی تعمیر کی وجہ سے چترال کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ سال کے بارہ مہینے قائم رہتا ہے، اور یہیں سے چترال میں ترقی کے نئے دور کی شروعات ہوئی۔
جنرل مشرف کی شخصیت:
پروفیسر ممتاز حسین کے مطابق چترال میں سابق فوجی حکمران کی مقبولیت میں ان کی شخصیت کا بھی بڑا دخل ہے۔
’جنرل مشرف ناچ گانے اور موسیقی کے شوقین اور گھل مل جانے والے شخص تھے۔ چترال کے لوگ بھی موسیقی، ناچ گانے کے دلدادہ ہیں تو جنرل مشرف باقاعدگی سے چترال کا دورہ کرتے تھے اور یہاں میلوں ٹھیلوں میں شرکت کرتے اور لوگوں کے ساتھ مل کر ڈانس کیا کرتے تھے۔ اس لیے بھی وہ یہاں کے لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔‘
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے مطابق چترال کی آبادی کا 35 سے 40 فیصد حصہ اسماعیلی مسلمانوں پر مشتمل ہیں اور وہ جنرل مشرف کے آزاد طرزِ فکر اور روشن خیالی کے فلسفے سے بھی خود کو جوڑتے ہیں۔
’وہ ان کو ملک کے لیے اور خاص کر چترال کے لیے بہتر سمجھتے تھے اس لیے بھی ان کی مقبولیت ہے۔‘

چترال کے لوگوں کے خیال میں پرویز مشرف نے انہیں نظرانداز نہیں کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

پروفیسر ممتاز حسین کے خیال میں جنرل مشرف کی مقبولیت کی ایک وجہ چترال کی پسماندگی اور چترال کے لوگوں کو مختلف حکومتوں کی جانب سے نظر انداز کرنا ہے۔
’ہم چترالی مارجنلائزڈ لوگ ہیں۔ مسلسل نظر انداز ہونے کی وجہ سے اگر کوئی حکمران تھوڑی بھی توجہ چترال پر دیتا ہے تو لوگ اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ جنرل مشرف کا بھی یہی معاملہ ہے اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو بھی یہاں بہت مقبول تھے کیونکہ انہوں نے بھی چترال اور چترال کی پسماندگی دور کرنے پر توجہ دی تھی۔‘
جنرل پرویز مشرف کی مقبولیت کو سیاسی طور پر کیپٹلائز کرنے کے حوالے سے پروفیسر ممتاز حسین کا کہنا تھا کہ ’کیا مستقبل میں کوئی اس مقبولیت کو ووٹ میں یا سیاسی حمایت میں کنورٹ کر پائے گا۔‘
’یہ خاصا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ 2013 میں لوگوں نے مشرف کے نمائندوں کو ووٹ دیا تھا لیکن جب مشرف صاحب 2017-18 میں سیاست سے نکل گئے تو لوگوں نے بھی ان کی پارٹی کو 2018 میں ووٹ نہیں دیے۔ اس لیے کوئی جماعت یا فرد اس مقبولیت کو سیاسی طور پر ووٹ میں شاید تبدیل نہ کر پائے۔‘

شیئر: