Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف: کمانڈو جس کی کھال وردی تھی اور ہتھیار مُکا  

پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں روشن خیال اعتدال پسندی کا نعرہ لگایا اور جدیدیت کو فروغ دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
جنرل پرویز مشرف کی تین چیزیں مشہور تھیں، مُکے، ’میں کمانڈو ہوں اور وردی میری کھال ہے۔‘ جوں جوں وقت گزرا، اپنے وقت کے اس طاقتور ترین جرنیل کے مکوں، فوجی وردی اور کھال سے ایک ایک چیز پھسلتی گئی۔ 
اپنے آپ کو ایڈونچرس ماننے والے اور فوج سے اپنی نسبت کو غرور کی حد تک چاہنے والے جنرل پرویز مشرف کے لیے وہ لمحہ شاید سب سے زیادہ افسوسناک ہو گا جب ان کی فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی نے ان کے پیچھے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اور انہیں اپنے خلاف مواخذے کی تحریک سے بچنے کے لیے مجبورا مستعفی ہونا پڑا۔ 
18 اگست 2008 کو جب انہوں نے قوم سے خطاب میں ’پاکستان کا خدا حافظ‘ کے الفاظ کے ساتھ صدارت سے استعفٰی دینے کا اعلان کیا تو راقم ایک پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے واہ کینٹ کی ایک اسلحہ ساز فیکٹری میں فوجی افسران اور جوانوں کے درمیان موجود تھا۔  
اس خطاب کے بعد فوری خیال یہ آیا کہ اب فوج کا رد عمل کیا ہو گا۔ لیکن وہاں موجود وردی والے تمام لوگ بلا تمیز رینک اپنے معمول کے کاموں میں مصروف رہے اور ایک تقریب کے انتظامات اسی طرح جاری رہے جیسے اس خطاب سے پہلے ہو رہے تھے۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ 

جنرل پرویز مشرف کو 1998 میں پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

تقریبا نو ماہ قبل نومبر2007 کی ایک چمکتی صبح راولپنڈی کے ہاکی سٹیڈیم میں جب دھوپ کی تمازت فوجی کمان کی تبدیلی کی تقریب کے شرکا کو سرد موسم میں راحت بخش رہی تھی تو اس کمان کی علامت آرمی چیف کی روائتی چھڑی جنرل کیانی کے حوالے کرتے ہوئے نہ صرف جنرل پرویزمشرف کے ہاتھ لرز گئے بلکہ ان کے لیے یہ عمل انجام دینا ناممکن نظر آیا۔ عین اس لمحے جنرل کیانی نے آگے بڑھ کر ان کی مدد کی اور چھڑی لینے میں اپنے اس باس کی معاونت کی جس کے نزدیک فوج کی سربراہی چھوڑنا اپنی رخصتی کے پروانے پر دستخط کرنا تھا، اور وقت نے ثابت کیا کہ ان کا یہ خدشہ بے جا نہ تھا۔ 
یہ چھڑی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کرنے کے بعد ہر گزرتا لمحہ جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کو یقینی بناتا گیا۔ 

نواز شریف سے اختلافات کی ابتدا

11 اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہونے والے جنرل پرویز مشرف کو 1998 میں پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ 

جنرل مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے فارمولا بھی پیش کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

فوجی کمان سنبھالنے کے فورا بعد انہوں نے کشمیر میں ایک بڑا آپریشن کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں اور مئی 1999 میں کارگل جنگ کا آغاز کر دیا جو انڈیا اور پاکستان کو ایک مکمل جنگ کے دھانے پر لے آیا۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اس جنگ سے بچنے کے لیے امریکہ سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی جس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے نواز شریف سے اختلافات کی ابتدا ہوئی جو 12 اکتوبر 1999 کو ان کے اقتدار کے قبضے پر منتج ہوئی۔ 
پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے ساتھیوں کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے فوج کے سربراہ کی سری لنکا کے دورے سے واپسی پر ان کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کے بعد ردعمل کے طور پر اس وقت کی سویلین حکومت کو برخواست کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تاہم کئی دیگر حلقوں کے مطابق انہوں نے اس کی تیاری بہت پہلے مکمل کر لی تھی اور جب نواز شریف نے مشرف کو برطرف کرکے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے منصوبے پر عمل کر دیا۔ 

پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بھی بنائی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو سمیت کئی حلقوں نے خوش آمدید کہا اور ان کے پہلے تین سالوں کی کارکردگی کو مجموعی طور پر سراہا جاتا ہے۔ تاہم اس کے بعد عوام میں ان کی مخالفت بڑھتی گئی جو بعد میں ان کے خلاف تحریکوں کا باعث بنی۔ 

مغرب کی ڈارلنگ 

11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملوں نے پرویز مشرف کے لیے حالات یکسر بدل ڈالے۔ جہاں ایک طرف پہلے وہ مغرب کے لیے قابل قبول نہ تھے اب وہ ان کی ڈارلنگ بن کر ابھرے۔ ان کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ افغانستان میں امریکی جنگ کا حصہ بننے کے عوض اربوں ڈالر کی امداد بھی کی گئی۔ 
بعد ازاں لکھی گئی اپنی آپ بیتی میں جنرل مشرف نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اس جنگ کے دوران سینکڑوں شہریوں کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا اور اس کے بدلے ان سے کئی ملین ڈالر وصول کیے۔ انہی دنوں پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گرفتار کر کے افغانستان لے جایا گیا اور وہ آج بھی وہاں زیر حراست ہیں۔  

پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں روشن خیال اعتدال پسندی کا نعرہ لگایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

مسئلہ کشمیر کا حل اور آگرہ کانفرنس 

1999 میں بزورِ بازو کشمیر حاصل نہ کر سکنے کے بعد جب جنرل مشرف ملک کے سربراہ بنے تو انہوں نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی اور ایک فارمولا پیش کیا جس کے تحت کشمیر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے تمام فریقین کی رضا مندی سے اس مسئلے کو حل کر لیا جانا تھا۔ 
اس سلسلے میں انہوں نے جولائی 2001 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات کیے جو کامیابی کے قریب تھے لیکن انڈیا کی جانب سے معاہدے پر رضامندی میں پس و پیش سے کام لینے پر مشرف وہاں سے دلبرداشتہ ہو کر دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آ گئے۔  
لیکن اس دوران انہوں نے وہاں پریس کانفرنس اور میڈیا سے بات چیت کے دوران اپنے مضبوط دلائل سے انڈین میڈیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا جو بعد میں بھی جنرل پرویز مشرف کو بھر پور کوریج دیتا رہا۔ 
وہ میڈیا میں اپنا موقف پیش کرنے میں اتنے موثر تھے کہ صدارت چھوڑنے کے کئی سال بعد بھی انڈین اور عالمی میڈیا میں پاکستان فوج کے لیے موقف پیش کرتے رہے۔ 

روشن خیال اعتدال پسندی 

پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں روشن خیال اعتدال پسندی کا نعرہ لگایا اور جدیدیت کو فروغ دیا۔ انہوں نے اس نعرے کے تحت ثقافت کے فروغ اور  عورتوں کی آزادی کے لیے اقدامات کیے،جس کی وجہ سے ان کے غیر آئینی کاموں کے باوجود ملک کا ایک طبقہ ان کو ابھی بھی پسند کرتا ہے۔ 

 پرائیویٹ میڈیا کا فروغ  

جنرل پرویز مشرف نے ملک میں پرائیویٹ میڈیا کو بھی فروغ دیا اور اخبارات کو اپنے ٹی وی اور ریڈیو چینلز کھولنے کی اجازت دی جس کی وجہ سے پاکستان میں میڈیا کا انقلاب آیا۔ 

لال مسجد آپریشن اور اکبر بگٹی کے خلاف کاروائی 

مشرف کے ان اقدامات کے ردعمل میں پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گیے اور اسلام آباد کے مرکز میں ایک لائبریری پر قبضے کے تنازعے کے شدت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے یہاں فوجی آپریشن کا حکم دے دیا۔ اس آپریشن کے  بعد پاکستان میں شدت پسندوں کے حملوں کی ایک لہر آئی جو آج بھی کسی نہ کسی طور جاری ہے۔ 
 اسی طرح ’میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘ کا تکیہ کلام رکھنے والے جنرل مشرف نے بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے خلاف بھی کاروائی کا حکم دیا جس کی وجہ سے بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کو ایک نئی مہمیز ملی۔ 

پرویز مشرف کے زوال کی ابتدا

جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک معافی نامے کے ذریعے نواز شریف کے پورے خاندان کو سعودی عرب بھجوا کر ملک میں اپنے لیے سیاسی استحکام پیدا کرنے کی ایک کوشش کی تھی۔ لیکن 2006 کے بعد ملکی حالات کے پیش نظر ان پر تنقید بڑھتی گئی اور انہیں 2007 میں ایک اور سمجھوتے کے تحت نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کو وطن واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ 
دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی دہشت گردی میں موت کی وجہ سے ان پر بہت تنقید ہوئی اور پھر 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد ان کا اقتدار میں رہنا ممکن نہ رہا۔ 

افتخار چوہدری کی معزولی اور وکلا تحریک 

جنرل پرویز مشرف نے اختلافات کے باعث اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اپنے عہدے سے معزول کر دیا جس کے بعد ان کی بحالی کے لیے وکلا  نے ایک ملک گیر تحریک چلائی۔ اس تحریک نے بھی ان کی اقتدار پر گرفت کو بہت کمزور کر دیا تھا۔ 

 موت اور ڈی چوک میں لٹکانے کی سزا 

جنرل پرویز مشرف جن کو 17 دسمبر2019 کو ایک خصوصی عدالت کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی لگانے کے جرم میں سزائے موت اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں گھسیٹ کر لانے اور لٹکانے کا حکم دیا گیا، نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی تھی، تاہم اپنے خلاف غداری کا مقدمہ چلنے کی وجہ سے وہ مستقل طور پر دبئی منتقل ہو گیے اور اپنی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ 

شیئر: