Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو طرفہ معاہدے: پاکستان اور انڈیا کے درمیان سفارتی تعلقات اور ان کی معطلی کے اثرات

پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان سفارتی تعلقات نچلی سطح پر چلے گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی تاریخ تضادات، کشیدگی، جنگوں اور وقفے وقفے سے امن کی کوششوں سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جسے بار بار آزمائشوں کا سامنا رہا، مگر حیرت انگیز طور پر کچھ ایسے دو طرفہ معاہدے وقت کے ساتھ تشکیل پائے جنہوں نے دونوں ممالک کو سفارتی اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑے رکھا۔
ان معاہدوں میں بعض کی نوعیت سٹریٹجک ہے، جیسے جوہری تنصیبات کا تحفظ، جبکہ بعض مکمل طور پر انسانی ہمدردی پر مبنی ہیں، جیسے قیدیوں کو قونصلر رسائی اور قیدیوں اور ماہی گیروں کی فہرستوں کا تبادلہ وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم ان معاہدوں کی معطلی کے اثرات صرف سفارتی دائرے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ وہ عام انسانوں کی زندگیوں پر براہ راست ضرب لگاتے ہیں۔

 

سندھ طاس معاہدہ، ’اس کی معطلی انسانی بحران کی ابتدا ہے‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان معاہدوں کی تاریخ دونوں کے قیام سے ہی شروع ہوتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان پہلا بڑا معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے وجود میں آنے والا سندھ طاس معاہدہ تھا، جس نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک مستقل نظام متعارف کرایا۔
تب سے لے کر اب تک اس پر بظاہر عملدرآمد جاری ہے۔ تاہم انڈیا کی جانب سے بعض اوقات پانی روکنے یا نئے ڈیم تعمیر کرنے کے اقدامات اس معاہدے کی روح کے منافی سمجھے جاتے ہیں جبکہ پہلگام واقعے کے بعد انڈیا نے پہلی بار اسے معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایسے حالات میں پاکستان کے تحفظات میں اضافہ ہوتا ہے اور بعض ماہرین اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے تحت لانے کی تجویز دیتے ہیں۔

 

سابق سفیر عبدالباسط کے مطابق ’سندھ طاس معاہدہ کسی ایک حکومت کی نہیں بلکہ ایک پورے خطے کی آبی سلامتی کی دستاویز ہے، اگر اس پر سوالات اٹھنے لگیں تو یہ محض سفارتی چپقلش نہیں بلکہ ایک انسانی بحران کی ابتدا ہے جو جنگ کی ابتدا ہوگا۔ اسی لیے اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے تحت کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔‘

انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

لائن آف کنٹرول کی تشکیل کا ’شملہ معاہدہ‘
1972 میں طے پانے والا شملہ معاہدہ ایک اور اہم سنگ میل تھا، جو 1971 کی جنگ کے بعد ایک جنگ زدہ فضا میں تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش تھی۔ اس معاہدے میں واضح طور پر طے پایا کہ پاکستان اور انڈیا اپنے تمام مسائل کو دو طرفہ بات چیت سے حل کریں گے، اور کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کریں گے۔ اسی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول کا وجود تشکیل پایا تھا۔ 
دو طرفہ معاہدوں کی تاریخ میں سب سے اہم پیش رفتوں میں سے ایک 1988 میں ہوئی جب پاکستان اور انڈیا نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر سال یکم جنوری کو ایک دوسرے کو اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست فراہم کریں گے۔
جوہری تنصیبات کی فہرستوں کے تبادلے کا معاہدہ
اس معاہدے کا مقصد جوہری تنصیبات کو جنگی حملوں سے محفوظ رکھنا اور غیر ارادی یا حادثاتی تصادم سے بچنا تھا۔ 1998 میں دونوں ممالک کے جوہری تجربات کے بعد اس معاہدے کی اہمیت دو چند ہو گئی، کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
اگرچہ یہ تبادلہ آج بھی باقاعدگی سے ہوتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جوہری بیانات کے تناظر میں اس معاہدے کو توجہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
سابق سفیر عبدالباسط  کے مطابق ’یہ محض فہرستوں کا تبادلہ نہیں بلکہ ایک یقین دہانی ہے کہ ہم دشمن ہونے کے باوجود خودکشی نہیں کریں گے۔ اگر یہ عمل رکا، تو پھر دونوں ممالک اندھیرے میں چلنا شروع کریں گے، اور جوہری اندھیرا سب سے خطرناک ہوتا ہے۔‘
قیدیوں کو قونصلر رسائی کا معاہدہ
اسی نوعیت کا ایک اور اہم مگر اکثر نظر انداز ہونے والا معاہدہ قیدیوں سے متعلق ہے۔ 1988 سے پاکستان اور انڈیا ہر سال دو مرتبہ، جنوری اور جولائی میں، اپنی جیلوں میں قید ایک دوسرے کے شہریوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ مگر محض فہرستیں کافی نہیں ہوتیں۔

شملہ معاہدے پر وزیرِ اعظم اندرا گاندھی اور صدر ذوالفقار علی بھٹو نے جولائی 1972 میں دستخط کیے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے 2008 میں قونصلر رسائی سے متعلق ایک جامع معاہدہ کیا گیا، جس پر اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور انڈین وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے دستخط کیے۔
اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہری قیدیوں کو قونصلر اہلکاروں تک رسائی دینے، ان کی فوری شناخت ممکن بنانے، اور قانونی مدد کی فراہمی کے پابند ہوئے۔
اس معاہدے کی روح انسانی ہمدردی ہے، اور جب اس میں تاخیر یا تعطل ہوتا ہے تو اس کا خمیازہ وہ ماہی گیر یا سرحدی کسان بھگتے ہیں جو معمولی سی غلطی کے باعث برسوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔
 سابق سفیر نفیس ذکریا اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’قونصلر رسائی کسی ریاست کا احسان نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک لازمی انسانی حق ہے۔ جب ایک شخص کو اپنی شناخت سے بھی محروم کر دیا جائے تو وہ صرف قیدی نہیں، ایک لاوارث سایہ بن کر رہ جاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں زیر حراست انڈین نیوی کے کمنڈر کلبوشن یادو کو ان کے خاندان سے ملاقات اور اس کے ساتھ ساتھ انڈین ہائی کمشن کے حکام سے ملاقاتوں کی سہولت بھی اسی معاہدے کے تحت دی گئی ہے۔ 
سفارتی اہلکاروں سے متعلق ضابطہ اخلاق کا معاہدہ
اِن معاہدوں کے علاوہ 1992 میں سفارتی اہلکاروں سے متعلق ضابطہ اخلاق پر دستخط ہوئے جس کا مقصد دونوں ممالک میں موجود سفارتی عملے کو ہراسانی، دھمکی یا نگرانی جیسے حربوں سے بچانا تھا۔
اگرچہ یہ معاہدہ اب بھی کاغذ پر موجود ہے، لیکن عملی طور پر دونوں ممالک وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے سفارتی افسران کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرتے رہے ہیں جو اس معاہدے کی روح کے منافی ہے۔

1988 سے ہر سال ایک دوسرے کی جیلوں میں بند قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی 

ویزا فراہمی میں سہولت 
2012 میں ویزا معاہدے کی صورت میں ایک اور اہم پیش رفت ہوئی، جس نے صحافیوں، تاجروں، بزرگ شہریوں اور مذہبی زائرین کے لیے ویزا کا حصول نسبتاً آسان بنا دیا۔
تاہم سیکورٹی خدشات اور کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر بھی بارہا عملدرآمد مکمل طور پر نہیں ہو پاتا اور یوں ہزاروں لوگ سرحد پار اپنے رشتہ داروں سے ملنے، مزارات پر حاضری دینے یا ثقافتی تعلقات بحال کرنے سے محروم رہتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان تمام معاہدوں کی معطلی سے صرف ریاستی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی بلکہ عوامی سطح پر رابطے بھی منقطع ہوں گے۔ جہاں ایک طرف سفارتی بیانات اور الزامات کی جنگ جاری رہتی ہے، وہیں دوسری طرف عام انسان قیدی، ماہی گیر، بزرگ اور زائرین سب متاثر ہوں گے اور انھیں اس کشیدگی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
وہ معاہدے جو ماضی میں دشمنی کے باوجود جاری رہے، اگر آج کے سیاسی فیصلوں کی نذر ہونے لگیں تو اس سے نہ صرف باہمی اعتماد کا خاتمہ ہوگا بلکہ خطے کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

 

شیئر: