Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مدرسے کے مشتعل طلبہ کی وجہ سے موسیقی کی محفل بند کروائی: پشاور پولیس

پولیس نے ایک موسیقی کے پروگرام پر اس وقت چھاپہ مارا جب پشتو زبان کے مشہور گلوکار کرن خان پرفارم کررہے تھے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے شہر پشاور میں پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے شب برات کے موقع پر ایک موسیقی کی محفل اس لیے بند کروائی کیونکہ اس سے علاقے میں اشتعال پھیلنے کا خدشہ تھا۔
واضح رہے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک موسیقی کی محفل کے دوران پولیس اہلکاروں کو پنڈال کے اندر داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔
مقامی صحافی ارشد یوسفزئی کے مطابق پشاور میں پولیس نے ایک موسیقی کے پروگرام پر اس وقت چھاپہ مارا جب پشتو زبان کے مشہور گلوکار کرن خان پرفارم کررہے تھے۔
ارشد یوسفزئی اور دیگر صحافیوں کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر موسیقی کے آلات توڑے گئے تھے اور موسیقی سننے آئے لوگوں پر تشدد بھی کیا گیا تھا۔
پولیس  کے مطابق دلشاد آفریدی نے گزشتہ روز اپنے دوست کی شادی کے موقع پر موسیقی کی محفل سجائی ہوئی تھی جس میں پشتوگلوکار کرن خان کو بلایا گیا تھا۔
 اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے دلشاد آفریدی نے بتایا کہ ’ ہم موسیقی سے محظوظ ہورہے تھے کہ اتنے میں تیس، چالیس کے قریب پولیس اہلکار  زبردستی فارم ہاؤس میں گھس گئے اور زبردستی نہ صرف ان کا پروگرام بند کردیا بلکہ دلہے سمیت نو افراد کو گرفتار کرکے فنکاروں کے موسیقی الات کو بھی تھوڑ دیے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ 18 مارچ کو ان کے دوست کی شادی تھی جس کی خوشی میں قریبی دوستوں کے لیے اپنے پرائیویٹ فارم ہاؤس میں موسیقی کے پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔ پروگرام جاری تھا کہ اچانک پولیس نے چھاپہ مارا اور  سٹیج کے طرف پہنچ گئے اور فنکاروں پر تشدد کرنے لگے۔ 
دلشاد آفریدی نے پولیس کے موقف کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ’ پولیس نے کسی سے بات کی  نہ آرام سے پروگرام بند کرنے کا کہا، وہ سیدھا سٹیج تک دوڑے اور پشتو گلوکار کرن خان اور ان کے ساتھ بیٹھے فنکاروں کے آلات زمین پر دے مارے،  کرن خان کے ساتھ بھی تضحیک آمیز سلوک کیا۔‘
گلوکار کرن خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈی آئی جی خیبر پختونخوا اعجاز مہمند نے ان سے رابطہ کیا اور اس واقعے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ 
انہوں نے بتایا موسیقی کے پروگراموں میں اکثر ایسے مسائل پیش آتے رہتے ہیں۔
’سارے پولیس والے ایک جیسے نہیں ہوتے، اچھے برے ہر شعبے میں ہوتے ہیں، ان سے غلطی ہوئی ہے اور وہ شاید مان بھی گئے ہوں گے یا مان لیں گے کہ انہوں نے غلط کیا تھا۔‘ 
’ہم امن، پیار اور محبت کا پرچار کرتے ہیں، موسیقی سے کسی کی دل ازاری نہیں ہونی چاہیئے۔‘ 
خیبر پختونخوا کے فنکاروں کی تنظیم ہنری ٹولنہ کے صدر راشد خان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا پولیس کا فنکاروں کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا انتہائی تشویشناک ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اب یہاں بھی شروع ہونے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ موسیقی امن و امان کا پرچار کرتی ہے لیکن موسیقار کے ساتھ اس طرح کا رویہ برتنا قانون اور آئینی طور پر بھی غلط ہے کیونکہ اس ملک میں ہر شہری کو آزادی کا حق ہے اور ان کا تحفظ متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ 
اس حوالے سے معروف صحافی اور اینکرپرسن سلیم صافی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’پشاور پولیس نے گزشتہ شب شادی کی تقریب میں پشتو کے معروف اور پی ایچ ڈی گلوکار کرن خان کی تقریب پر بغیر وارنٹ کے چڑھائی کی۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے دلہا سمیت چار افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔

تاہم ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں پشاور پولیس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ شہر کے پشتخرہ تھانے کی حدود نذیر آباد میں ’شب برات‘ کو موقع پر پیش آیا۔
پولیس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’مقامی افراد پروگرام روکنے کی خاطر منتظمین کے پاس متعدد بار گئے لیکن ناکامی پر زور زبردستی کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ’پروگرام سے چند قدم کے فاصلے پر مدرسہ واقع ہے جس کے طلبہ بھی مشتعل ہوئے تھے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ پروگرام میں شامل فنکاروں سمیت کسی بھی شخص سے بھی زبردستی نہیں کی گئی اور انہیں حفاظتی تحویل میں تھانہ منتقل کیا گیا ’کیونکہ راستے میں مقامی افراد اور نزدیکی مدرسے کے مشتعل طلباء موجود تھے۔‘

شیئر: