Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خاندان ’سابع‘ کی روایت کو جدید انداز کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہیں

بچے کی پیدائش کے ساتویں دن اہتمام کے ساتھ خوشی کی تقریب ہوتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب میں ’سابع‘ کی روایت جس میں بچے کی پیدائش کے ساتویں دن اہتمام کے ساتھ خوشی کی تقریب ہوتی ہے، آج بھی پنپ رہی ہے اور ثقافتی میراث و مذہی رسوم اور تقریبات کو آسان بنانے کی جدید صنعت کے درمیان توازان قائم کیے ہوئے ہے۔
’سابع‘ کی روایت ویسی ہے جیسے پیدائش کے بعد بچے کو نہلاتے ہیں لیکن یہ کام پیدائش کے سات دن بعد کیا جاتا ہے اور روایتی طور پر بچے کے رشتہ دار اس تقریب کا انتظار کرتے ہیں۔
یہ تقریب خاندان کا اکٹھا ہونا ہی نہیں بلکہ ’سابع‘ ایک سماجی اور روحانی سنگِ میل بن گئی ہے۔ اس رسم میں بچے کی صحت کے لیے دعا کی جاتی ہے، خاندان والوں اور ہمسایوں کو کھانا کھلایا اور بانٹا جاتا ہے اور بچے کو لوگوں کو دکھایا جاتا ہے۔

 رسم کی سماجی حیثیت اور سٹائل میں تبدیلی کے باوجود، ’سابع‘ اور عقیقے کی روح ایک جیسی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

یہ عمل ’عقیقے‘ سے بہت زیادہ قریب ہے جس پر سنت ہونے کی وجہ سے عمل ہوتا ہے۔ عقیقے میں لڑکے کی پیدائش پر دو جبکہ لڑکی کی پیدائش پر ایک بھیڑ قربان کی جاتی ہے۔ گوشت کو رشتہ داروں، دوستوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
دو بچوں کے والد رضا عمدا کہتے ہیں ’عققیہ اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے اور بچے پر رحمت کی دعا کے لیے ہوتا ہے۔ یہ وہ روایت ہے جو فیملی کے رشتوں کومضبوط بناتی ہے اور ساتھ ساتھ کمیونٹی کی مدد کرتی ہے۔‘
قربانی کے علاوہ والدین ساتویں دن اکثر بچے کا سر منڈوانے کا علامتی عمل سرانجام دیتے ہیں جو طہارت اور رحمت کی ایک علامت ہے۔ بعض خاندان بچے کے بالوں کو یادگار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔
کچھ سعودی خاندانوں کے لیے ’سابع‘ ایک گہری ذاتی یاد ہے۔ رضا عمدا جن کا تعلق جدہ سے ہے انھیں والدین نے بتایا کہ جب وہ اور ان کے جڑواں بھائی سات کے ہوئے تو خوشی کی تقریبات کیسے کی گئیں۔

کچھ سعودی خاندانوں کے لیے ’سابع‘ ایک گہری ذاتی یاد ہے (فوٹو: عرب نیوز)

 عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’مجھے گھر والوں نے بتایا کہ چونکہ ہم دونوں لڑکے تھے لہذا ہم نے چار بھیڑیں قربان کیں۔ میری امی بتاتی ہیں کہ کیسے سارا محلہ ہمارے ہاں جمع ہوا تھا اور سب لوگوں کے ساتھ کھانا شیئر کیا گیا تھا۔‘
لیکن جب رضا عمدا نے اپنے بچوں کی پیدائش پر اس تقریب کا اہتمام کیا تو انھوں نے روایت کو تو زندہ رکھا لیکن آج کی زندگی کی رفتار کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔
’میں نے عقیقے کا انتظام کیا لیکن چونکہ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے تو نغموں کے لیے لائیو بینڈ کے بجائے لیپ ٹاپ کو کام میں لایا گیا۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھی فیملیاں آج کل بھی معاوضے پر روایتی گروپوں کو بلاتی ہیں لیکن میں اس تقریب کو سادہ رکھنا چاہتا تھا۔ میرے لیے اہم ترین بات قربانی اور لوگوں میں کھانا تقسیم کرنا تھا۔‘

یہ وہ روایت ہے جو فیملی کے رشتوں کومضبوط بناتی ہے (فوٹو: سیدتی)

کئی خاندانوں کے لیے سابی کا مقصد ایک جگہ جمع ہونا ہے۔ حنین سیف کے دو بچے ہیں اور وہ بتاتی ہیں کے انھوں نے جو تقریب منعقد کی تھی اس کی یادیں بہت دیر تک ساتھ رہیں۔
’ہم بچوں کو بلاتے ہیں کہ وہ موم بتیاں پکڑیں اور بچے کے پنگوڑے کے گرد دائرہ بنا کر گانے گائیں۔ یہ رسم میرے اجداد سے آئی ہے۔ لیکن اس تقریب میں ہمیشہ قربانی کے بعد کھانا کھلایا جاتا ہے اور مائیں بچے کو تحائف دیتی ہیں۔ ماں کو سونا یا جیولری بھی دی جاتی ہے خاص طور پر اگر تقریب بچی کی پیدائش پر ہو۔‘
’سابع‘ کی روایت اب خاندان سے آگے نکل گئی ہے اور ایک معاشی موقع میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شادی کی تیاریوں کے لیے چیزیں بیچنے والی دکانیں اب حجازی سٹائل کے ’زافا‘ کی پیشکش بھی کرتی ہیں جس میں بچے کی پیدا کی تقریب میں روایتی لباس اور مقامی میراث کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور علامتوں کے ساتھ گیت گانے والے ایک جلوس کی شکل میں بچے کےگھر میں داخل ہوتے ہیں۔

اس رسم میں بچے کی صحت کے لیے دعا کی جاتی ہے (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

روایتی طریقوں کے ساتھ اس نوعیت کی چیزیں واضح کرتی ہیں کہ ’سابع‘ کی شکل بدل گئی ہے لیکن اس کی روح آج بھی قائم ہے۔
اس رسم کی سماجی حیثیت اور سٹائل میں تبدیلی کے باوجود، ’سابع‘ اور عقیقے کی روح ایک جیسی ہے یعنی خاندانی رشتوں کو مضبوط بنانے کا موقع اور اللہ کے حضور شکر گزاری کے ساتھ ساتھ زندگی نے جو کچھ دیا ہے اس پر خوشی کا اظہار۔
چاہے سادگی سے گھر پر منائی جائے یا ڈیزائن ایونٹ کے طور پر جس میں چکا چوند اور فوٹوگرافر ہوں، سابی کی راویت، عہدِ حاضر کے طرزِ زندگی کے مطابق ڈھل کر اس بات کو نمایاں کرتی ہے کہ سعودی عرب میں ثقافتی میراث کو محفوظ بنانے کی صلاحیت ہے۔

 

شیئر: