کراچی کے ساحل پر تاریخ رقم، سب سے بڑے کنٹینر بردار بحری جہاز کی آمد
کراچی کے ساحل پر تاریخ رقم، سب سے بڑے کنٹینر بردار بحری جہاز کی آمد
پیر 13 اکتوبر 2025 16:55
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کراچی کے ساحل پر سورج ابھی پوری طرح نہیں چمکا تھا کہ سمندر کے کنارے موجود ٹرمینل پر غیر معمولی ہلچل تھی۔
دور افق پر ایک دیوہیکل سیاہ دھبہ آہستہ آہستہ واضح ہو رہا تھا، چند لمحوں بعد معلوم ہوا کہ یہ کوئی عام بحری جہاز نہیں بلکہ دنیا کے بڑے ترین کنٹینر بردار جہازوں میں سے ایک ہے ایم ایس سی مِکول، جو ملک میں داخل ہونے والا تاریخ کا سب سے بڑا جہاز ہے۔
چند گھنٹوں بعد، یہ دیو قامت جہاز ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل کے پانیوں میں داخل ہوا، جہاں درجنوں انجینئرز، ماہرین بحریات اور بندرگاہ کا عملہ تیار کھڑا تھا۔
یہ لمحہ پاکستان کی بندرگاہی تاریخ کا وہ موڑ بن گیا جس نے نہ صرف ایک ریکارڈ توڑا بلکہ مستقبل کی ایک نئی سمت بھی متعین کر دی۔
ایم ایس سی مِکول کی جسامت کا اندازہ لگانا شاید زمین پر کھڑے ہو کر ممکن نہیں۔ یہ جہاز 400 میٹر لمبا ہے، یعنی دو فٹ بال گراؤنڈز کو ایک قطار میں رکھ دیا جائے، تو اس سے بڑی لمبائی بنتی ہے۔ اس میں 24 ہزار کنٹینرز رکھنے کی گنجائش ہے، جنہیں اگر زمین پر ایک دوسرے کے پیچھے رکھا جائے تو یہ لائن کراچی سے نوری آباد تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ وہی جہازوں کی قسم ہے جنہیں انتہائی بڑے کنٹینر بردار جہاز (الٹرا لارج کنٹینر ویسلز) کہا جاتا ہے اور جو صرف چند ممالک کے گہرے پانی والے بندرگاہوں پر ہی لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔
یہ جہاز یہاں کیسے پہنچا؟
کراچی کے ساحل پر پہنچنے والا یہ بحری جہاز ملکی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا جہاز ہے (فوٹو: وزارت بحری امور)
پاکستان میں طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا رہا کہ مقامی بندرگاہیں بڑے جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ کراچی اور قاسم بندرگاہیں، جنہیں 1950 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، ان کی گہرائی زیادہ سے زیادہ 13 تا 14 میٹر تھی، جبکہ ایسے جہازوں کو کم از کم 17 میٹر گہرے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
1960 میں کراچی کے مغربی ساحل پر ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل (ایس اے پی ٹی) کی تعمیر اس سوچ کو بدلنے کی پہلی کوشش تھی۔
یہ ٹرمینل ہچیسن پورٹس کے اشتراک سے بنایا گیا، جو ہانگ کانگ کا ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہی وہ سہولت ہے جس نے پاکستان کو دنیا کے بڑے بحری نظام سے جوڑنے کی بنیاد رکھی۔
آج ایم ایس سی مِکول کی کامیاب لنگر اندازی اسی صلاحیت کا عملی ثبوت ہے کہ پاکستان اب گہرے پانی کے جہازوں کو نہ صرف خوش آمدید کہہ سکتا ہے بلکہ انہیں مؤثر طور پر ہینڈل بھی کر سکتا ہے۔
ٹرمینل کے اندر کا منظر
جب جہاز کراچی کے قریب پہنچا تو بندرگاہ کے عملے نے جدید ترین خودکار کرین نظام کو متحرک کیا۔
ٹرمینل کے کنٹرول روم میں دیواروں پر نصب سکرینز جہاز کے ہر زاویے کی لائیو نگرانی کر رہی تھیں۔ جہاز کی آمد کے وقت ہوا کا دباؤ، سمندری بہاؤ اور ڈرافٹ لیول مسلسل ناپا جا رہا تھا۔
’ایم ایس سی مِکول کے لیے خصوصی ہینڈلنگ پلان تیار کیا گیا تھا‘ (فوٹو: وزارت بحری امور)
ایک سینیئر انجینیئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ جہاز ہمارے سسٹم کے لیے ایک امتحان تھا مگر ہم نے بغیر کسی تاخیر کے اسے برتھ کیا۔ کوئی تکنیکی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔‘
ان کے مطابق ’ایم ایس سی مِکول کے لیے خصوصی ہینڈلنگ پلان تیار کیا گیا تھا، جس پر تین دن تک ٹیسٹنگ اور سمیولیشن کی گئی۔‘
تاریخی پس منظر جہاں سے یہ سفر شروع ہوا
پاکستان میں پہلی بار 2018 میں سی ایم اے سی جی ایم سینٹورس 11 ہزار پانچ سو کنٹینرز کے ساتھ کراچی پہنچی تھی۔ اس کے بعد 2021 میں ایم ایس سی اَنا نے انیس ہزار کنٹینرز کے ساتھ نیا ریکارڈ قائم کیا۔
مگر ان دونوں جہازوں کے مقابلے میں ایم ایس سی مِکول نہ صرف زیادہ بڑا ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس بھی ہے۔ اس کے انجن کم ایندھن استعمال کرتے ہیں، کاربن اخراج کم ہے، اور نیویگیشن سسٹم مکمل طور پر خودکار ہے۔
یہ وہ خصوصیات ہیں جو عالمی شپنگ انڈسٹری میں ماحولیاتی ذمہ داری اور کارکردگی کے نئے معیار مقرر کر رہی ہیں۔
معاشی پہلو ، سمندر سے مستقبل تک
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے جہازوں کی آمد صرف ایک بندرگاہی کامیابی نہیں بلکہ معاشی موقع بھی ہے۔ پاکستان میں سالانہ تقریباً ایک لاکھ 40 ارب ڈالر کی درآمد و برآمد سمندری راستوں سے ہوتی ہے لیکن زیادہ تر جہاز چھوٹے سائز کے ہونے کے باعث منتقلی بندرگاہوں (ٹرانس شپمنٹ پورٹس) سے گزرتے تھے خاص طور پر دبئی، سنگاپور یا مسقط۔
ٹرمینل کے کنٹرول روم میں دیواروں پر نصب سکرینز جہاز کے ہر زاویے کی لائیو نگرانی کر رہی تھیں (فوٹو: وزارت بحری امور)
اب اگر پاکستان براہ راست ایسے جہاز قبول کرنے کے قابل ہو گیا ہے، تو اس سے ہر سال اربوں روپے کے اخراجات میں کمی ممکن ہے۔ یہ پیش رفت ٹرانس شپمنٹ کے بجائے براہ راست کنکشن کی راہ کھول سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک جہاز نہیں، بلکہ ایک علامت ہے کہ پاکستان اب عالمی سمندری راستوں میں شامل ہو گیا ہے۔ اگر حکومت درست پالیسی اپنائے تو کراچی خطے کا مرکزی تجارتی حب بن سکتا ہے۔
’چیلنجز بھی کم نہیں‘
جہاں یہ کامیابی امید جگاتی ہے، وہیں چیلنجز بھی نمایاں ہیں۔ پاکستان کے بیشتر بندرگاہی انفراسٹرکچر کو اب بھی ڈیجیٹل نظام، کرینوں کی جدید کاری اور کسٹمز کے خودکار نظام کی ضرورت ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ اصلاحات نہ ہوئیں تو بڑے جہازوں کی آمد وقتی خوشی سے زیادہ کچھ نہیں دے سکے گی۔
ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل جو ہانگ کانگ کے ادارے کے اشتراک سے بنایا گیا ہے (فوٹو: وزارت بحری امور)
عوام کا پرمسرت ردعمل
جہاز کی آمد کے بعد کراچی کے شہریوں نے ساحل کلفٹن اور منوڑہ سے اس جہاز کا نظارہ کیا۔ سوشل میڈیا پر ایم ایس سی مِکول کے مناظر شیئر ہورہے ہیں اور کئی صارفین نے اسے پاکستان کی بحری کامیابی کا دن قرار دیا۔
ایم ایس سی مِکول کی لنگر اندازی پاکستان کی بندرگاہی صلاحیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔یہ اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ اگر وژن، ٹیکنالوجی اور استقامت یکجا ہوں تو وہ کام بھی ممکن ہیں جنہیں کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ اب سوال یہ نہیں کہ پاکستان کے پانیوں میں کیا آ سکتا ہے؟ بلکہ یہ ہے کہ پاکستان اب سمندروں سے کیا حاصل کر سکتا ہے؟ اور اس سوال کا جواب آنے والے برسوں میں شاید اسی بندرگاہ کے گہرے نیلے پانیوں سے ملے گا۔