پاکستان کو درپیش اندرونی خطرہ ایک سوچ اور شخصیت سے ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر
پاکستانی افواج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش اندرونی خطرہ ایک سوچ اور شخصیت سے ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘
جمعے کو راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق وزیراعظم عمران خان پر نام لیے بغیر تنقید کی۔
جنرل احمد شریف نے کہا کہ ’ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے، اب ان کا بیانیہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے آج وہ کچھ کہا جائے گا جو کچھ کہا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ سمجھنا ہو گا یہ بیانیہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ افسوس کے ساتھ یہ بیانیہ بیرونی قوتوں سے مل کر بنایا جا رہا ہے، ہم افواج پاکستان ہیں، ہم کسی علاقایت، کسی لسانیت، کسی مذہبی طبقے کو یا کسی سیاسی فکر کی نمائندگی نہیں کرتے، افواج میں پاکستان کے ہرعلاقے، مذہب، زبان اور سیاسی سوچ کے لوگ موجود ہیں لیکن جب ہم یہ یونیفارم پہن لیتے ہیں تو تمام تفریق ختم ہو جاتی ہے، یہ یونیفارم ہمارا فخر ہے، ہم روزانہ کسی سیاسی سوچ یا علاقے کی وجہ سے جان نہیں دیتے بلکہ پاکستان کے لوگوں کے لیے جان دیتے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’اگر اپنی ذات کے لیے یا نرگیسیت کے لیے کوئی پاکستانی فوج اور فوج کی قیادت کو نشانہ بنائے گا تو جواب دیں گے۔‘
’دیکھیں کیسے بیانیے کو ٹریٹ کیا جاتا ہے، انڈین میڈیا اس کو کیسے اچھالتا ہے، پھر غیر ملکی اکاؤنٹس شروع ہوجاتے ہیں، پھربے نامی اکاؤنٹس آجاتے ہیں، اصل بیانیہ ذہنی مریض نے دیا باقیوں نے بڑھایا۔ اس شخص کو لگتا ہے کہ اس کی ذات ریاست سے بڑھ کر ہے۔ اس شخص کی بہن انڈین میڈیا پر بیٹھ کر دھمکیاں دیتی ہیں، جیل توڑنے اور دوبارہ عسکری املاک پر حملے کی دھمکی دیتی ہیں۔‘
پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے وزیراعلی خیبرپختونخوا کے بیانات بھی چلائے۔
جنرل احمد شریف نے کہا کہ ’ آئین میں اظہار رائے کی آزادی کا ذکر ہے، اس آرٹیکل میں مزید بہت کچھ ہے، کس فوج کے خلاف بیانیہ بنایا جارہاہے؟ پہلے بیانیہ بناتا ہے، آئی ایم ایف کو خط لکھتا ہے، بیرونی ملک سے پیسے نہ بھیجنے کا کہتا ہے، پھر فوجی لیڈر شپ کو نشانہ بنانے کا کہتا ہے، یہ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ کوئی تو ہے جو چاہتا ہے کہ خوارج کے خلاف برسرپیکار فوج کو کمزور کیا جائے، جب پارٹی سے بیانیے کا پوچھا جائے تو کہاجاتا ہے کہ معلوم نہیں کہاں سے چلا؟ یہ شخص ذہنی مریض ہے۔‘
