لاہور کے پوش علاقوں میں مہنگی گاڑیوں کے ٹائروں کا چوری کے واقعات: طریقہ واردات کیا ہے؟
لاہور کے پوش علاقوں میں مہنگی گاڑیوں کے ٹائروں کا چوری کے واقعات: طریقہ واردات کیا ہے؟
جمعہ 5 دسمبر 2025 5:34
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی متعدد ویڈیوز اور تصاویر میں کاروں کو اینٹوں پر کھڑا دکھایا گیا ہے جبکہ ان کے تمام ٹائر غائب ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ماڈل ٹاؤن، ڈیفنس، کینٹ اور گلبرگ جیسے پوش رہائشی علاقوں میں مہنگی گاڑیوں کے ٹائر چوری ہونے کے واقعات میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی متعدد ویڈیوز اور تصاویر میں کاروں کو اینٹوں پر کھڑا دکھایا گیا ہے جبکہ ان کے تمام ٹائر غائب ہیں۔
یہ واقعات محض انفرادی چوریاں نہیں لگتے بلکہ ایک منظم طریقہ کار کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں چور رات کی تاریکی میں نہایت تجربہ کار انداز میں ٹائر اور الائے رم اتار کر لے جاتے ہیں اور گاڑی کو وہیں چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں۔
متاثرہ شہریوں کی شکایات سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا میں بھی رپورٹ کی گئیں۔ ڈیفنس فیز 6 کے رہائشی محمد عبداللہ نے بتایا کہ ان کی گاڑی رات کو گھر کے باہر پارک تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’صبح میں نے گاڑی صاف کرنی تھی، لیکن جب باہر آیا تو دیکھا کہ گاڑی کے چاروں ٹائر غائب تھے۔ گاڑی اینٹوں پر کھڑی تھی اور واردات نہایت صفائی سے کی گئی تھی۔ ہم نے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، جو اب پولیس لے گئی ہے، اس میں چور خود بھی ہنڈا سیوک پر آئے اور چند منٹوں میں یہ کام مکمل کر گئے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس کام کے ماہر ہوں۔‘
اسی علاقے میں دو دن کے اندر ایک اور خاتون کی گاڑی کے ٹائر بھی گھر کے باہر سے اتار لیے گئے۔ ماڈل ٹاؤن اور کینٹ کے علاقوں میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
پولیس نے حال ہی میں کار ٹائروں کی چوری میں ملوث ایک چار رکنی گروہ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ گرفتار افراد کی شناخت فضل، ہاشم، غضنفر اور غلام حسین کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ٹائروں کے کاروبار سے وابستہ محمد عثمان کے مطابق چوری شدہ ٹائر عام طور پر سپیئر پارٹس مارکیٹوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ (فوٹو: پاک وہیلز)
ترجمانِ پولیس کے مطابق یہ گروہ رات کے وقت گھروں کے باہر کھڑی مہنگی گاڑیوں کو نشانہ بناتا تھا۔ ملزمان چند منٹوں میں گاڑی کو جیک کر کے ٹائر اتار لیتے تھے اور گاڑی کو اینٹوں پر چھوڑ کر فرار ہو جاتے تھے۔
ملزمان کے قبضے سے 39 چوری شدہ ٹائر برآمد کیے گئے ہیں جبکہ تفتیش کے دوران انہوں نے درجنوں وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔ مزید برآں، ان ٹائروں کو خرید کر آگے فروخت کرنے میں ملوث چند ڈیلرز کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو مختلف شہروں میں اس نیٹ ورک سے جڑے ہوئے تھے۔ تاہم ان گرفتاریوں کے باوجود ٹائروں کی چوری کے واقعات کا سلسلہ مکمل طور پر نہیں رک رہا۔
ٹائروں کے کاروبار سے وابستہ محمد عثمان کے مطابق چوری شدہ ٹائر عام طور پر سپیئر پارٹس مارکیٹوں میں فروخت کیے جاتے ہیں، جبکہ بعض اوقات یہ آن لائن ایپس کے ذریعے بھی بیچے جاتے ہیں۔
’چور گروہ عموماً مہنگے الائے رِمز کو ترجیح دیتے ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ٹائر لاہور کے علاوہ پشاور اور کوئٹہ تک بھی بھیجے جاتے ہیں جہاں نسبتاً کم قیمت پر فوراً فروخت ہو جاتے ہیں۔‘
مثال کے طور پر جو ٹائر اور رم مارکیٹ میں 18 سے 25 ہزار روپے میں فروخت ہوتے ہیں، وہ چوری شدہ حالت میں صرف 10 ہزار روپے میں بیچے جاتے ہیں۔ اس چیز کو ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن خریداروں کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا خرید رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ لاہور کے پوش علاقوں میں اس سے پہلے گاڑیوں کے شیشے چوری ہونے کے واقعات بڑھ گئے تھے، اور اب ٹائروں کی چوری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اکثر چور بڑی گاڑیوں پر آتے ہیں تاکہ ان پر شبہ نہ ہو۔