Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امتحان میں نقل کےلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ، ممتحن ہوشیار

امتحان اور نقل شاید لازم وملزم چیزیں ہیں ۔ اساتذہ ہمیشہ نقل کی مخالفت کرتے رہے ہیں لیکن جب یہی اساتذہ طالب علم تھے تو وہ پھر اسی ”کار خیر“ سے مستفید ہوتے تھے، نقل کا سلسلہ کب شروع ہوا یہ کوئی نہیں کہہ سکتا مگر یہ سبھی کہہ سکتے ہیں نقل آج بھی جاری ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں نقلیں تیار ہورہی ہیں۔ صنعتوں اور خاص کر کیمیائی صنعتوں اور کاسمیٹکس کے ساتھ نقلی دوائیں اور دوسری نقلی چیزوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں مگر نقالی اجتماعی نوعیت کی ہوتی ہے جبکہ اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات میں ہونے والی نقالی انفرادی ہوتی ہے۔ پرزے بنانے ، پوری کتاب یا اس کے جز لے کر امتحان گاہوں میں جانے ، حد یہ کہ اپنے کپڑوں اور زیرجاموں پر بھی امکانی سوالات کے جوابات لکھے ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت از حد کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔یہ ایسی نقلیں ہوتی تھیں جو چونکہ امتحان گاہوں کی نگرانی کرنے والے اساتذہ وغیرہ نے بھی کی ہوتی تھی اس لئے وہ ان کو پکڑ بھی لیتے تھے مگر آج کے اساتذہ کو نقالی روکنے کے لئے سخت پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی ان طلبہ اور بعض اساتذہ کی بھی مددگار ثابت ہورہی ہے۔ 
اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں SAT،سیٹ کے دو امتحانی پرچے آن لائن پر لیک کردیئے گئے اور بہت سے اساتذہ اور غیرذمہ دار قسم کے والدین کی بھی چاندنی ہوگئی اب قراءنامی ایک سائٹ جو سوشل میڈیا سے تعلق رکھتی ہے نقل کے نت نئے جدید اور تکنیکی طریقوں پر روشنی ڈالتی ہے جس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ طلبہ اچھے گریڈ یا زیادہ نمبر حاصل کرنے کےلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔ نقل کے نئے ہتھکنڈوں اوراوزلر بنے الٹراوائلٹ قسم کے قلم انسانی جلد کی رنگ والے ایئرفون مشن امپاسبل میں دکھائے گئے۔ قلم جسے ”جادو اثر“ قلم بھی شامل ہیں۔ قراءسائٹ پر آنے والی اطلاعات کے مطابق کئی ٹیچروں نے ان طریقوں کی وضاحت کی ہے جس سے طلبہ امتحانی نظام کو ناکام بنانے اور بغیر پڑھے لکھے امتحانات پاس کرنے لگے ہیں۔اب طلبہ کلکولیٹر مشینوں کے پیچھے جواب لکھ لاتے ہیں ۔ یہ عبارتیں ایک خاص قسم کی پنسلوں سے لکھی ہوئی ہوتی ہیں جنہیں پڑھنا طلبہ کے علاوہ سبھوں کے لئے مشکل ہے۔ ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ مارگن ایوانس کا کہنا ہے کہ اب بعض طلبہ اسمارٹ واچز پر ڈالے گئے جوابات سے بے دھڑک فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اسی ہفتے تھائی لینڈ میں ایسے 3ہزار سے زیادہ طلبہ کو دوبارہ امتحانات میں بیٹھنے ” اور امتحان“ دینے کو کہا گیا جو چند دنوں قبل امتحان گاہ میں خفیہ طریقے سے نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ بینکاک کی رنگ سیٹ یونیورسٹی کے ریکٹر ارتھت قرایرات نے فیس بک پر نقالی کے جدید طریقوں اور نقل کرنے کے لئے استعمال ہونیوالی ٹیکنالوجی کی متعدد تصویریں جاری کردی ہیں اور انہی تصویروں کی بنا پر ان 3ہزار طلبہ کو دوبارہ امتحان دینے کو کہا گیا ہے۔ تصویروں سے پتہ چلتا ہے کہ 3طلبہ اپنے چشمے کے قریب ہی ننھے وائرلیس کیمرے چھپارکھے ہیں جس کی مدد سے وہ کسی دور بیٹھے ہوئے نامعلوم لوگوں کو سوالنامے کی تصویریں بھیجتے اور پھر ان کے جواب حاصل کرتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان تینوں طلبہ نے بعض ٹیوٹر گروپ سے مدد لینے کے لئے اس کی فیس 23ہزار ڈالر کی خطیر رقم دی تھی جس میں نقالی میں کام آنیوالے ساز وسامان کی قیمت اور جوابات کی اجرت شامل تھی۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم دیورٹریشا پرکایاشاتھا کا کہنا ہے کہ اس کے ایک ساتھی نے ایک مرتبہ امتحان گاہ کے بلیک بورڈ پر ایک نقشہ بنادیا جسے دوسروں نے نقل کرکے جواب دیدیا۔ اس مقصد کے لئے کئی طلبہ نے مائکروسوفٹ آفس کے آئیکونز سے مدد لی تھی۔ ایک اور طالب علم برانڈن ویلنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ عرصہ سے اپنے قلم میں جوابی پرزے رکھتا ہے اور اس کے لئے اسے خاص طور پر اپنے قلم میں خود ہی ایک چھوٹا سوراخ کرنا پڑتا ہے۔ایک سوفٹ ویئر انجینیئر نے جو کبھی ٹیچری بھی کرچکے ہیں کہاکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض طلبہ اپنے جوابی پرچے میں ان پرچوں کو جمع کرتے اور ٹیچر کی طرف سے نمبر دئیے جانے کے بعد بھی نت نئے طریقوں سے چیٹنگ کرجاتے ہیں۔
 

شیئر: