Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمانوں کا جینا حرام

المیہ یہ ہے کہ سماج میں احتجاج کی آوازیں کمزور پڑرہی ہیں اور ظالمانہ نظام کیخلاف آواز بلند کرنیوالوں کی تعداد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے
* * * * معصوم مرادآبادی* * * * *
عدم تشدد کے علمبردارگاندھی کے دیش میں یوں تو فرقہ وارانہ تشدد اور مسلم دشمنی کی پوری تاریخ موجود ہے لیکن حالیہ عرصے میں گائے کے تحفظ کے نام پر جس طرح مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ملک کے کئی صوبوں میں گئو رکشکوں نے درجنوں مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر انتہائی بے دردی سے ہلاک کردیاہے۔ سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ ان صوبائی حکومتوں نے قصورواروں کیخلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے وحشی درندوں کے حوصلے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ یہ تمام ریاستیں بی جے پی کے اقتدار والی ہیں، جہاں گئو کشی کرنے والوں کے خلاف تو سخت ترین قوانین وضع کئے جارہے ہیں لیکن گئو کشی کے جھوٹے الزام میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیںہورہی۔
صوبائی حکومتوں کی اسی ڈھیل کا نتیجہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں روزبروز اضافہ ہوتا چلاجارہاہے ۔ حال ہی میں ہریانہ اور جھارکھنڈ میں گئو کشی کا جھوٹا الزام عائد کرکے بے گناہ مسلمانوں کو وحشت وبربریت کا نشانہ بنایاگیا ہے حالانکہ اس ظلم وبربریت کے خلاف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر اترآئی ہے اور مذہبی شناخت کی بنیاد پر جان لینے والوں کے خلاف عوامی مہم زور پکڑرہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی گئو بھکتی کے نام پر لوگوں کے قتل کو ناقابل قبول اور گاندھی کے آدرشوں کے خلاف قرار دیا ہے لیکن زمینی سطح پر اس قسم کے بیان کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مودی کے بیان کے چند گھنٹوں کے بعد ہی جھارکھنڈ کے رام گڑھ ضلع میں ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاگیا۔ علیم الدین عرف اصغر انصاری نام کے اس شخص کو بیف رکھنے کے شبہ میں بے دردی سے ہلاک کردیاگیا۔ علیم الدین کا گوشت کا کاروبار تھا جس کی گاڑی میں بیف ہونے کی افواہ اڑا دی گئی۔ اسکے بعد بھیڑ نے اس پر حملہ بولا اور گاڑی کو بھی نذرآتش کردیا۔
ہم آپ کو یاد دلادیں کہ اسی قسم کا بیان وزیراعظم نریندرمودی نے گزشتہ سال اس وقت بھی دیا تھا جب گجرات میں بعض دلت نوجوانوں کو گئو کشی کے الزام میں بری طرح مارا پیٹا گیا تھا۔ وزیراعظم کے اس بیان کے بعد اس قسم کی وارداتوں میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوگیا تھا۔ اس لئے ایک بار پھر یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وزیراعظم کا بیان گئو بھکتوںکی حوصلہ افزائی کا سبب تو نہیں ہوگا۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم نریندرمودی ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اس قسم کی وارداتوں کے لئے ذاتی طورپر قصوروار قرار دیں گے، جہاں گئو بھکتی کے نام پر بے گناہوں کی گردنیں ناپی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے اس کی کوئی توقع نہیں کیونکہ یہ سب بی جے پی سرکاروں میں ہورہا ہے۔ ملک میں اس قسم کے واقعات کا آغاز ستمبر 2015میں اترپردیش کے قصبے دادری سے ہوا تھا، جہاں محمد اخلاق کو انتہائی وحشیانہ طورپر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاگیا تھا۔ محمد اخلاق پر گائے ذبح کرنے کا جھوٹا الزام عائد کیاگیا تھاحالانکہ اس واقعہ کے بعد سول سوسائٹی میں ایک خاص بیداری محسوس کی گئی تھی اور ملک کے کئی نامور ادیبوں اور فنکاروں نے اپنے سرکاری ایوارڈ واپس کردیئے تھے۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حکومت اس کا اثر قبول کرے گی لیکن حکومت نے ایوارڈ واپس کرنے والوں کی کردار کشی کی مہم شروع کردی اور اس کام کے لئے فسطائی ذہنیت رکھنے والے فنکاروں کو آگے کردیا گیا۔ گئو کشی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور اس عرصے میں دودرجن سے زیادہ مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاگیاہے۔
دودھ کے ایک تاجر پہلوخان کی جے پور میں وحشیانہ ہلاکت کے بعد حال ہی میں ہریانہ کے بلبھ گڑھ کے رہنے والے4 مسلم نوجوانوں کے ساتھ دہلی سے متھرا جارہی ٹرین میں جو کچھ ہوا ،اس نے ایک بار پھر سب کی توجہ ہجوم کی درندگی اور بربریت کی طرف مبذول کردی ہے۔ 4 مسلم نوجوان عید کی خریداری کے لئے دہلی آئے تھے اور عید کا سامان خرید کر بلبھ گڑھ میں واقع اپنے گاؤں واپس جارہے تھے کہ ٹرین میں ان کا حلیہ دیکھ کر انہیں وحشت وبربریت کا نشانہ بنایاگیا۔ حملہ آوروں نے انہیں گائے کا گوشت کھانے والا اور سخت سست کہا ۔ اس حملے میں ایک 16سالہ نوجوان جنید خان کی موقع پر ہی موت ہوگئی جسے چاقوؤں سے بری طرح زدوکوب کیاگیا تھا۔ باقی 3 نوجوانوں کو بھی چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا۔ اس سانحہ کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں کی عید غم میں بدل گئی اور ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں نے کالی پٹیاں باندھ کر عیدالفطر کی نماز ادا کی اور اپنا احتجاج درج کرایا۔ اس سلسلے کا سب سے مؤثر احتجاج ملک وبیرون ملک کے ڈیڑھ درجن سے زائد شہروں میں 28جون کو برپا کیاگیا۔
جہاں سول سوسائٹی کے لوگوں نے جن میں سرکردہ دانشور ، سماجی کارکن ، ادیب اور صحافی موجود تھے، مذہب کے نام پر لوگوں کو نشانہ بنانے کے خلاف خاموش احتجاج درج کرایا۔ شاید اس احتجاج کا ہی اثر تھا کہ اگلے روز وزیراعظم نریندرمودی کو گجرات میں گئو کشی کے نام پر غنڈہ گردی پھیلانے والوں کے خلاف زبان کھولنی پڑی۔ اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں احتجاج کی آوازیں کمزور پڑرہی ہیں اور ظالمانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی تعداد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے، جو انتہائی تشویشناک ہے۔ حکومت نے اپنے ظالمانہ اقدامات سے غیر جانبدار میڈیا اور حکومت کے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کو خوف زدہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
ڈر اور خوف کے ماحول سے ہر شخص فکر مند نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔ ناٹ ان مائی نیم (میرے نام پر نہیں) اسی قسم کی ایک تحریک ہے جس کا آغاز فلم ساز صبادیوان کی ایک فیس بک پوسٹ سے ہوا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر پریم سنگھ بھی خاموش احتجاج درج کرانے کے لئے جنترمنتر پر بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔

شیئر: