Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرملکیوں پر ماہانہ فیس کانفاذ ، مثبت اور منفی پہلوکیا ہیں؟

سعوی عرب نے غیرملکیوں کو’’ پالنے ‘‘ کا ٹھیکہ بند کردیا ہے،ہم نے یہاں بیسیوں سال گزار کر خودکو اپنے وطن میں اجنبی بنالیا
* * * *عبد الستارخان* * * *
آخر وہی ہوا جس کا لاکھوں تارکین کو ڈر تھا۔ سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے اہل خانہ پر ماہانہ 100ریال فیس کا نفاذ ہوچکا ہے جبکہ فیس کی وصولی کیلئے ابشر نظام کو فعال کیا جاچکا ہے۔علاوہ ازیں افراد خانہ کیلئے ابشر کے ذریعہ خروج وعودہ کروانے کیلئے پہلے ماہانہ 100ریال فیس ادا کرنی ہوگی۔ غیرملکیوں کے اہل خانہ پر ماہانہ فیس عائد کرنے کا فیصلہ سعودی کابینہ نے منظور کیا تھا جس کے بموجب جولائی2017سے اس کا نفاذ ہوگا۔ جولائی 2017سے جولائی2018تک اہل خانہ کے ہر فرد پر ماہانہ 100ریال فیس عائد کی گئی ہے۔ جولائی 2018سے جولائی 2019ء تک ہر فرد پر ماہانہ فیس200ریال ہوجائیگی۔ اسی طرح جولائی 2019ء سے جولائی 2020ء تک فیس میں اضافہ کرکے اسے 300ریال کردیا گیا ہے جبکہ جولائی 2020ء سے جولائی 2021ء تک فی کس ماہانہ فیس400ریال ہوجائیگی۔ غیرملکیوں کے اہل خانہ پر ماہانہ فیس کی ادائیگی یکمشت اور اقامہ تجدید کے وقت یا پھر ابشر نظام کے مطابق خروج وعودہ کا ویزہ جاری کرتے وقت ادا کرنی ہوگی۔
گوکہ اس کی مزید تفصیلات سرکاری ذرائع سے آنا باقی ہیں تاہم یہ بات واضح ہے کہ تادم تحریر غیرملکیوں کے اہل خانہ پر ماہانہ فیس کا نفاذ ہوچکا ہے الا یہ کہ کوئی مزید وضاحت آجائے۔ متعلقہ سرکاری ذرائع سے وضاحت اور نظام کے اطلاق کے قواعد وضوابط ابھی تک جاری نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سرکاری ذرائع اپنے طور پر اس کی وضاحتیں کر رہے ہیں جن کے مطابق پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ ماہانہ فیس مرافقین پر لاگو ہوگی ، تابعین پر نہیں۔محکمہ پاسپورٹ کی اصطلاح کے مطابق مرافق والدین، بہن، بھائی ، ساس،18سال سے زیادہ عمر کے بچے اور غیرملکی کی کفالت میں دیگر افراد کو کہا جاتا ہے جبکہ تابعین بیوی اور18سال سے کم عمر بچوں کو کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں غیر سرکاری ذرائع سے ہی یہ وضاحت آئی کہ فیس کا اطلاق مرافقین اور تابعین دونوں پر ہوگا۔ اب فیس کے فیصلے کے نفاذ کے بعد بھی متعلقہ سرکاری محکموں سے کوئی وضاحت نہیں آئی تاہم سداد نظام اور ابشر نظام سے رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فیس کا اطلاق مرافقین اور تابعین دونوں پر ہے، ان میں کوئی فرق نہیں۔ غیر سرکاری تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرملکیوں کے اہل خانہ خواہ وہ مرافقین ہوں یا تابعین ، دونوں پر ماہانہ فیس کے علاوہ خود غیرملکی کارکنوں پر ماہانہ فیس کا اطلاق کرنے سے ملکی خزانہ کو خطیر آمدنی متوقع ہے۔ سعودی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ 2020ء تک اگر فیس کے نظام کا نفاذ ویسے ہی رہا جیسے منصوبہ بنایا گیا تھا تو سعودی عرب میں وہ غیرملکی اہل خانہ کے ساتھ نہیں رہ سکیں گے جن کی ماہانہ تنخواہ 6000 ریال یا اس سے کم ہے۔اگر اس تجزیہ کو درست مانا جائے تو موٹا حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں 60فیصد غیرملکی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہوں گے کیونکہ غیر ملکیوں کے سوادِ اعظم کی اوسط تنخواہ 6000ریال ہے۔
اس تجزیہ کو وزارت محنت کے اس فیصلے کے ساتھ دیکھا جائے جس میں کہا گیاہے کہ سال رواں کے آخر تک شاپنگ مالز میں غیرملکیوں کے کام پر پابندی ہوگی تو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے 3سال کے دوران سعودی عرب میں مقیم 60فیصد خاندان اپنے وطنوں کو واپس جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مقامی اخبارات میں غیرملکیوں کے اہل خانہ پر ماہانہ فیس کے نفاذ کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہاہے۔مکہ اخبار نے فیس کے مثبت پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے بعد ان منفی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہاہے کہ غیرملکیوں کے اہل خانہ پر فیس کے نفاذ سے گوشوارے مرتب کرنے والوں کے مطابق ملکی خزانے کو68بلین ریال کی آمدنی ہوگی تاہم یہ آمدنی اس وقت ممکن ہوگی جب غیرملکی فیس لاگو ہونے کے بعد بھی ملک میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم رہیں جبکہ حالت یہ ہے کہ بیشتر غیرملکی اپنے اہل خانہ کو واپس بھیج رہے ہیں۔
اندازہ لگایا جارہاہے کہ فیس سے بچنے کیلئے آنے والے دنوں کے دوران ہی 6لاکھ 70ہزار مرافقین اور تابعین واپس چلے جائیں گے۔ اس طرح ملکی خزانے میں مذکورہ رقم کی آمدنی ممکن نہیں ہوگی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم غیرملکی فیملیز سالانہ 88بلین ریال ملک میں خرچ کرتے ہیں۔ جب وہ چلے جائیں گے تو مقامی مارکیٹ اس خطیر رقم سے بھی محروم ہوجائیگی۔ یہ رقم ملکی پیداوار کا 7.3فیصد ہے۔ غیرملکیوں کے اہل خانہ پر ماہانہ فیس کا نفاذ زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ اب مزید کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں، نہ ہی کھوکھلی امیدیں لگانے کی ضرورت ہے۔
سعودی وزیرخزانہ نے گزشتہ دنوں دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ اس وقت مملکت میں 12ملین غیرملکی ہیں جبکہ ہمیں ضرورت صرف 4ملین کی ہے۔اس کا صاف ، سیدھا اور دوٹوک مطلب یہ ہے کہ سعوی عرب نے غیرملکیوں کو’’ پالنے ‘‘ کا ٹھیکہ لینا بند کردیا ہے۔ بات صحیح ہے مگر کڑوی بہت ہے کہ ہم نے سعودی عرب میں بیسیوں سال گزار کر خود کواپنے وطن میں اجنبی بنالیا ہے۔ ہمیں پاکستان میں مستقل رہائش اختیار کرنے سے خوف آتا ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہم کیوں غریب الدیا ربنے، کیوں اپنے وطن کو ، اپنے اعزہ اور احباب کو چھوڑا تھا۔ہم میں سے بیشتر تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے وطن میں اپنا گھر تک نہیں بنایا۔
ہم ریٹائر ہوئے، بوڑھے ہوگئے، کام کاج کے قابل بھی نہیں رہے مگر کفیلوں کو پیسے کھلاکھلا کر حرام خوری کا عادی بنالیا تاکہ ہمارا اقامہ برقرار رہے اور ہم یہیں پڑے رہیں اور وطن واپس نہ جائیں۔ یہ سب کس لئے، صرف اس لئے ہم نے اپنے ملک میں کچھ نہیں کیا۔ اب ہم صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ خود اپنے خاندان میں اجنبی ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے بیسیوں سندھی اور بلوچی خاندانوں کو جانتا ہوں جن کی تیسری نسل یہاں جوان ہورہی ہے۔ ان کا پاکستان سے تعلق محض شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی حد تک ہے اور وہ بھی اقامہ کی تجدید کیلئے ورنہ ضرورت نہیں تھی۔ اگر سعودی عرب نے غیرملکیوں پر ماہانہ فیس عائد کی ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔ ہوش کے ناخن لیں، میں ،آپ اور ہم سب یہاں اجنبی ہیں۔ یہ ملک سعودیوں کا ہے اور اس کے خزانوں پر پہلا حق ان کا ہے۔
سعودی عرب نے ہمارا ٹھیکہ نہیں لیا ۔ اس ملک نے ہمیں اب تک کمانے کی آزادی دی اور ہمیں پورا موقع دیا کہ ہم اس دوران اپنے مادر وطن میں اپنے لئے اور اپنے بچوں کیلئے کچھ کریں۔ جن لوگوں نے اپنے وطن کو نصب العین میں رکھا اور وہاں اپنا مستقبل محفوظ کیا ، انہیں فیس کے نفاذ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان کا اپنے وطن میں گھر بار بھی ہے اور سرمایہ جو ماہانہ بچت کی صورت میں وہ اپنے وطن بھیجتے رہے ۔ رہے وہ لوگ جو بیسیوں سال سے یہاں کی کمائی کھاتے رہے اور کل کی فکر سے بے نیاز رہے اور اپنے وطن کو پلٹ کر بھی نہیں دیکھا، ان کے پاس کف افسو س ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

شیئر: