Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال حکمت پر مبنی ہے؟

لاؤڈ اسپیکر کی آواز تیز کرنے سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا ،معتدل رکھنے سے نہ ہی نمازیوں کی تعدادمیں کمی ہو گی
* * * *عبد الستارخان* * * *
سعودی عرب میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کا مسئلہ بہت پراناہے اور ہر سال نئے انداز سے سر اٹھاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وزارت اسلامی امور کے تحت ادارہ اوقاف کی طرف سے ہر سال اعلامیہ جاری ہوتا ہے جس ’’سخت‘‘ لہجے میں تاکید کی جاتی ہے کہ مساجد کے باہر لاؤڈ اسپیکر صرف اذان اور اقامت کے لئے استعمال کئے جائیں، خلاف ورزی پر سخت کارروائی ہوگی جبکہ ہر سال بیشتر مساجد میں اوقاف کی ہدایت پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ آپ سعودی عرب کے کسی بھی شہر کے کسی بھی محلے میں چلے جائیں۔ اکثر مساجد کے مناروں اور بیرونی عمارت کو دیکھیں تو آپ کو ہر زاویہ سے لاؤڈ اسپیکر نظر آئیں گے۔اگرچہ نماز کے وقت کے اعلان کے لئے ایک دو لاؤڈ اسپیکر پورے محلے کے لئے کافی ہیں مگر مساجد کی مقامی انتظامیہ مسجد کے ہر زاویہ میں پاور فول لاؤڈ اسپیکر لگواتی ہے تاکہ نہ صرف محلے والوں کو اذان کی آواز سنائی دے بلکہ اگلے محلے والوں تک بھی آواز پہنچ جائے گوکہ اگلے محلے والوں کی اپنی مسجد ہے جہاں پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے۔ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب اذان یا اقامت کے وقت آپ مسجد کے قریب ہوں اور آواز اتنی تیز ہوتی ہے کہ کان پھٹنے لگتے ہیں۔
اذان اور اقامت تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر نماز بعد امام صاحب کا درس بھی پاور فول لاؤڈ اسپیکر پر پورے محلے میں سنایا جاتا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے اور گھر گھر تک وعظ پہنچانے کا کیا مقصدہے کسی کو نہیں معلوم ۔میں جس محلے میں رہتا ہوں اس میں خاصی بڑی مسجد ہے جو ہر نماز کے وقت بھری رہتی ہے۔ محلے کی مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا مسئلہ اپنی جگہ اور عصر کے بعدامام صاحب کا وعظ اپنی جگہ۔ موصوف کی عادت ہے کہ رمضان میں خاص طور پر زوجین کے تعلق سے روزہ توڑنے اور نہ توڑنے والے امور کے درس کا موضوع بنانا اور وہ بھی پاورفول لاؤڈ اسپیکر کی مددسے۔آخر دعوت وتبلیغ میں حکمت کا پہلو کیوں مخفی کردیا جاتا ہے۔ کیوں یہ بات سوچی نہیں جاتی کہ مسجد کے پڑوسیوں میں کوئی بیمار بھی ہوسکتے ہے۔ معمر ، کمزور اور ضعیف بھی جنہیں آرام کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔معصوم بچے بھی ہوں گے جو اس اونچی آواز سے جاگ سکتے ہیں۔ بہت پرانی بات ہے ،ایک مرتبہ بنی مالک میں ایک دوست کے گھر گیا۔ میں ابھی وہیں تھا کہ مغرب کی اذان ہوگئی۔ دوست نے جلدی سے وضو کا انتظام کروایا اور ہم دونوں گھر سے نکل پڑے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے دوست عجلت میں ہیں حالانکہ ابھی اقامت نہیں ہوئی۔ میں نے آخر پوچھ لیا کہ ابھی اقامت نہیں ہوئی ، آپ اتنی جلدی کیوں کر رہے ہیں۔
میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ہمارے محلے کی مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پرصرف اذان دی جاتی ہے۔ اقامت اور نماز کے لئے اندرون مسجد لاؤڈ اسپیکر کااستعمال ہوتا ہے۔ باہر بالکل خاموشی ہوتی ہے اور اہل محلہ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کب اقامت ہوئی اور کب نماز کھڑی ہوگئی۔ یہ بات مجھے بڑی عجیب لگی۔ خیر ہم مسجد پہنچے ہی تھے کہ اقامت ہوگئی۔ نماز سے فارغ ہوکر میں سیدھا امام صاحب کے پاس چلا گیا۔ مصافحہ کیا اور تعارف ہوا۔ پھر میں نے بتایا کہ آپ کے محلے میں مہمان ہوں اور مجھے لاؤڈ اسپیکر والی بات معلوم ہوئی ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ آپ بیرونی لاؤڈ اسپیکرصرف اذان کے وقت استعمال کرتے ہیں ۔ اقامت اور نماز کے وقت استعمال کیوں نہیں کرتے۔ امام صاحب جو سعودی تھے ، انہوں نے کہا کہ اذان نماز کے وقت کا اعلان ہے۔ اذان سننے کے بعد آدمی کو فوری طور پر وضوکرکے مسجد کا رخ اختیار کرنا چاہئے۔ اقامت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقامت نماز کے وقت کااعلان نہیں بلکہ جماعت کھڑی ہونے کا اعلان ہے۔ ہم نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کردیا کہ نماز کا وقت ہوگیاہے۔ اب اہل محلہ کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر مسجد میں حاضر ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اقامت کے وقت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ اہل محلہ اقامت سے پہلے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ سلف صالحین کا یہی رویہ رہا ہے کہ اذان سنتے ہی مسجد میں حاضر ہوجاتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اقامت ہوجائے اور ان میں کوئی ابھی مسجد نہ پہنچا ہو۔ امام صاحب کی بات کافی وزنی محسوس ہوئی۔ مجھے اس پر بڑی خوشی بھی ہوئی ۔ میرا خیال ہے کہ جدہ کی یہ واحد مسجد تھی جہاں لاؤڈ اسپیکرکا صحیح استعمال کیا جاتاتھا۔ اب پتہ نہیں کیا حال ہوگا مگر غور کرنے کاپہلو یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کاحکمت پر مبنی استعمال کیا ہے ۔ کیا واقعی ہم لاؤڈ اسپیکر کوصحیح طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جب بات ان مساجد کی کی جائے جو بازاروں میں ہیں تو بات اور بھی زیادہ گمبھیر ہوجاتی ہے۔ عام دنوں میں نماز کے وقت دکانیں بند رہتی ہیں اور بیشتر لوگ نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں مگر رمضان کے دوران تراویح کی نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا کیا کام ہے جبکہ مسجد بازار کے عین وسط میں ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تروایح کی نماز ادا ہورہی ہے ، امام صاحب پاور فول لاؤڈ اسپیکر میں قرآن مجید کی آیات تلاوت کر رہے ہیں اور دوسری طرف دکانیں کھلی ہیں، بازار میں رونق لگی ہے اور خریدار اپنی پسند کی چیزوں کی خریداری میں منہمک ہیں۔ گاہکوں اور دکانداروں کی درمیان قیمت اور رعایت پر تکرار ہورہی ہے اور ہر ایک اپنی دنیا میں مگن ہے جبکہ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے مسلسل قرآن مجید کی تلاوت کی جارہی ہے۔
کیا یہ قرآن مجید کی بے حرمتی نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو مومنوں کو چاہئے کہ خاموش رہیں اور کان لگا کر سنیں ۔اس صورت حال میں قصور وار گاہکوں کو تصور کیا جائے جو تراویح کے وقت خریداری کرنے آئے ہیں یا دکاندار ہیں جنہوں نے تراویح کے وقت دکانیں بند نہیں رکھیں یا پھر مسجد کی انتظامیہ ہے جو بازار آنے والوں کو زبردستی قرآن مجید کی تلاوت سنانے پر اصرار کر رہی ہے یا پھر ادارہ اوقاف اس کا ذمہ دار ہے جس کی ہدایات پر نہ کل عمل کیا گیا تھا اور نہ ہی آج کیا جاتاہے۔ اذان اسلام کے بنیادی شعائر میںسے ہے۔ مساجد بھی نہایت محترم ہیں جو زمین پر اللہ کا گھر ہیں۔ اللہ کی کبریائی کا اعلان ہر وقت ہونا چاہئے اس سے کسی کو اختلاف نہیں مگر لاؤڈ اسپیکر کی آواز تیز کرنے سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا نہ ہی لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو معتدل رکھنے سے نمازیوں کی تعدادمیں کمی ہوجائے گی۔ اصل مسئلہ حکمت کا ہے ۔حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ، جسے عطا ہوئی تو اسے خیر کثیر عطا ہوا اور جس سے سلب ہوگئی تو وہ تمام بھلائیوں سے محروم ہوگیا۔

شیئر: