Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہرکی معاونت کے بغیرعورت صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر سکتی ، شبانہ اقبال

مجھے والد صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ قلم کبھی نہ چھوڑنا، اس کا حق ادا کرتے رہنا ، ہوا کے دوش پر اردو نیوز سے گفتگو
* * * * * زینت شکیل۔ جدہ* * * * * *
مالک حقیقی نے پوری کائنات کو انسان کے ساتھ منسلک فرمادیا ہے۔ ہر ایک شے انسان کی خدمت کر رہی ہے۔ سورج وقت پر نکلتا ہے اور دن روشن ہو جاتا ہے۔ چاند کی چاندنی اور ستاروں کی کہکشاں آسمان کو سجا دیتی ہیں۔ رات ڈھلتی ہے اور سحر نمودار ہوتی ہے۔ قدرت کی صناعی بے مثال ہے۔ انسانی ذہن آسمان کی بلندی تک پرواز رکھتا ہے۔ انسان ستون کے بغیر بنائی گئی اس چھت کو دیکھتا ہے اور تدبر کرتا ہے۔ ہر زمانے میں علم دوست حلقے سماجی ، معاشرتی، مذہبی ، ادبی اور روحانی مفید اصلاحی کتب ، رسائل اور جرائد اپنی مخلصانہ کوششوں سے عوام کو پہنچاتے رہے ہیں۔ ایسے مشائخ اور بزرگان گزرے ہیں جو اپنے علم اور مطالعے کی ایک دنیا بسائے رکھتے تھے۔ سلطنت اپنی جگہ پر، امارات و وجاہت اپنی جگہ پر اور علم دوستی، فن پروری، مہمان نوازی اپنی جگہ پر۔ امراء، اہل کمال کے فقراء تھے۔ جب سکوں اور جواہرات کے زور پر فن خریدا نہیں جاتا تھا او راہل فن اہل کمال کوامارت اور وجاہت کے زیرنگیں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ امراء کمال اور اہل کمال کو تخت نشیں کر کے خود خاک نشین ہو جاتے تھے۔
آج کے علم دوست لوگوں نے صحرا میں پھول کھلا ئے ۔عرب دنیاکے پہلے اردو اخبار اردو نیوز کا اجراء ہوا ۔ا سی اخبار کے معروف سلسلے ’’ ہوا کے دوش پر‘‘ رواں ہفتے ہماری ملاقات سعید اقبال احمد اور ان کی اہلیہ محترمہ شبانہ اقبال سے ہوئی۔ شبانہ اقبال صاحبہ گفتگو کر رہی تھیں اور اردونیوز کی ڈھائی عشروںپر مشتمل کاوش اپنی چھب دکھلا رہی تھی۔ اس اخبار نے تمام اہل زبان کے دلوں کو مسرتوں سے معمور کیا۔ ہم وطنوں سے آدھی ملاقات روزانہ کی بنیاد پر ہونے لگی۔اس میں جو صاحب کمال آئے، ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔ قدردانی کا افسانہ ادھورا نہیں رہا۔ یہ قدردانی اخلاص پر رہی۔ اغراض کے ماتحت نہ ہوئی۔ جوہری کی دکان پر جواہرات کی آمد ہوتی ہے اور جتنا بڑا جوہری ہو گا، جواہرات اس کے یہاں اسی شان کے آئیں گے۔ صحرائے عرب میں اردو زبان کی تاریخ جب بھی رقم کی جائے گی تو علم و عقل، ہنر وحکمت، ادب و شعر کے گہوارے کی حیثیت سے سعودی عرب کا نام جگمگائے گا۔ محترمہ شبانہ اقبال نے کہا کہ آج مختلف علوم نے نہایت تیزی سے ترقی کی اور ہر شعبۂ حیات کو متاثر کیاہے۔ چیزوں کو عقلی اور استدلالی نکتہ نظر سے دیکھنے کا رحجان زور پکڑتا گیا۔
اسی رجحان کے تحت ادب نے بھی اپنے مخصوص میدان عمل میں بہترکارگزاری کے لئے مختلف علوم سے استمدادکی۔ علم معاشرت، انسانی معاشرت کے مختلف مدارج ،مختلف دور ، انکی خصوصیات اور اسباب و علل وغیرہ کا سراغ لگانے کی کوشش کی۔ مختلف ممالک کے لوگ ایک نئی بستی بسانے پر دیس پہنچے اور معاشرتی تبدیلیاں تاریخ کاحصہ بن گئیں۔ محترمہ شبانہ نے کہا کہ ایک قلمکار اسی طرح معاشرے کااہم فرد ہوتا ہے جس طرح دوسرے حساس افراد۔
اس بات سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ جس چیز کی جہاں قدر اور طلب ہوتی ہے وہ چیز متنوع صورت میں وہاں پہنچ جاتی ہے۔ شبانہ اقبال سے دوران گفتگو معلوم ہوا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے کراچی میں ہی حاصل کی اور نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں ممتاز رہیں۔ کالج پہنچیں تو وہاں میگزین کی ایڈیٹر رہیں۔انہیں ریڈیو پاکستان کراچی کے معروف اور ہر دلعزیز پروگرام ’’صبح دم دروازۂ خاورکھلا‘‘کا اسکرپٹ لکھنے کااعزاز بھی حاصل رہا۔ اس کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے شائع ہونے والے رسالے’’آہنگ‘‘کے لئے بھی انہوں نے کافی عرصے تک مضامین لکھے۔ ایک قدم اور بڑھ کر انہوں نے کثیر الاشاعت اردو روزنامے اور ہفت روزہ میگزینز میں بھی لکھا۔ والد صاحب چاہتے تھے کہ وہ اردو میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کریں لیکن اب صحافت میں ان کی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی جبکہ والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ مناسب وقت پرصاحبزادی کو سسرال رخصت کیا جائے چنانچہ ان کے ہاتھوں میں مہندی رچائی گئی اور وہ کراچی سے جدہ آپہنچیں۔
شبانہ نے کہا کہ مجھے والد صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ قلم کبھی نہ چھوڑنا، اس کا حق ادا کرتے رہنا ۔ ڈھائی دہائی قبل یہ وہ دور تھا جب جدہ میں باادب ، باذوق، افراد کی محافل گاہے بگاہے منعقد ہوا کرتی تھیں۔یوں ہمارے شوق ِ ادب کی تکمیل ہوتی رہتی تھی۔ اردو نیوز کے اجراء سے قبل نعیم بازیدپوری نے رابطہ کر کے ہمیں بھی اخبار میں لکھنے کا مشورہ دیا۔ وہ بہت اچھا اور منفرد سادن تھا۔ محترم عبدالسلام سلامی کا فون آیا جو اس وقت اردونیوز کے ایڈیٹرتھے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ اردونیوز کی آج پہلی اشاعت ہے ، اسے پڑھئے گا ضرور۔ عرب اسلامی دنیا میں اردواخبار کی اشاعت بالکل ایساتھا :
 ’’جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے‘‘
 بہر حال اردونیوز کی پہلی اشاعت میں اپنا مضمون چھپنے پر بے حد خوشی ہوئی۔ اس کے بعد میں نے ہر صفحے کیلئے لکھا۔ تارکین وطن ، خواتین اوربچوں کے صفحات کے علاوہ میں نے کھیل کے صفحے پر بھی طبع آزمائی کی۔’’نظارے ایسے جیسے ہیں‘‘ میں تارکین وطن خواتین کے شب و روز کی نمائندگی کی تو مرد حضرات نے ایڈیٹر صاحب کے پاس خطوط کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ یہاں تک کہ ان خطوط کیلئے ایک صفحہ مقرر کردیا گیا تا کہ جانبداری کا الزام نہ دیاجا سکے بلکہ کچھ خطوط نے تو مضمون کا روپ دھار لیا۔ ’’ آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں‘‘ کے زیر عنوان بھی بے شمار مضامین لکھے جن کی تعداد بھی یاد نہیں رہی ۔اس کے علاوہ جدہ کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کی کوریج بھی کی۔ تارکین وطن کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے حتی الامکان کاوشیں کیں ۔شعرملاحظہ ہو:
’’ دیکھنے بیٹھو تو اعداد کی لمبی سی قطار
 ڈھونڈنے جاؤ تو ممکن ہے صفر بھی نہ ملے‘‘
جدہ میں جب شعر و ادب کی دنیا میں پہچان ہوئی توشہرکے ایک معروف اسکول نے ہمیں بھی استاد کہلائے جانے کا شرف بخشا۔ قلم‘ کتاب کا گہرا اور مضبوط رشتہ قائم ہوا تو پاپا بے حد خوش ہوئے۔ پاکستان جائیں تو اردونیوز میں اپنے مضامین اور جدہ میں ہونے والے ان مشاعروں کی کوریج ، جن میں شامل ہونے کاانہیں اعزاز حاصل ہوا تھا، انہیںپڑھ کر خاص طور پروالد صاحب اور باقی گھر والے بھی بے حد خوش ہوتے۔ شعر وشاعری کا شوق بچپن سے رہا اور اتفاق تھا کہ انگریزی کی استاد پروین شاکر جو اس وقت لڑکیوں کی آئیڈیل تھیں، ان کی شخصیت نے اس شوق کو مزید ہوا دی۔ کالج میں ان کا ساتھ بڑا مختصر مگرموثر رہا۔ پھول خوشبو، بارش ، ساحل سمندر اور پرکیف ہوا آج بھی لکھنے لکھانے پر مائل کرتے ہیں۔
شبانہ صاحبہ نے بہت محبت سے اپنے والدین کا ذکر کیا کیونکہ وہ عرفان صاحب اور والدہ محترمہ کنیزبانو کی چہیتی بیٹی ہیں۔ ان کی خوبیاں اپنی شخصیت میں سمولی ہیں۔ اسپورٹس ہو یا ادب سے دلچسپی، انہیں والدصاحب سے وارثت میں ملی۔ جب والد صاحب ایک انگریزی اخبار میں لکھا کرتے تھے اور ہاکی کے بہترین کھلاڑی بھی تھے۔ ان کی شاگردی میں ہاکی کے بڑے نامور کھلاڑی موجود ہوتے تھے۔ شبانہ صاحبہ نے اپنے بھائی سعید اعجاز الرحمن اور بھابھی جان کے بارے میں بتایا کہ وہ ہم سب کی فکر کرتے ہیں کیونکہ آج کل تمام خاندان کسی نہ کسی وجہ سے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہے تو سب جگہ اپنے لوگوں کی خیریت دریافت کرتے ہیں۔ ان کی خوش اخلاقی اور مہمانداری احباب میں مشہور ہے۔ ان کی بہن مسز شہناز رحیم ملنسار ہیں۔ ان کے کھانے پکانے کے شوق نے لوگوں کو گرویدہ بنایا ہے۔ بھائی شعیب الرحمان اور بھابھی جان خاندان بھر کیلئے سیر وسیاحت کا پروگرام بناتے ہیں۔ سب کوان کے پروگرامز کا انتظار رہتا ہے۔ بھائی سعید فیصل الرحمان سب سے چھوٹے ہیں۔ بہن مسز ثمینہ خالد ایکٹو خاتون ہیں۔ بچوں کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ شبانہ اقبال کا کہنا ہے کہ ادبی شاہکار انسانی فطرت کے بنیادی جذبات و احساسات اور دیگر قوانین دریافت کرتا ہے۔ انسانوں کے احساسات کی تنظیم کرتا ہے۔شاعری احساس کے وسیلے سے مردہ ضمیر کو بیدار کرتی ہے۔ متمدن زندگی میں ادب کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس کا ایک اہم کردار فطرت کے جمال کی فنکارانہ عکاسی کر کے ذہنی انبساط کے ذریعے لوگوں میں مسرت بانٹنا ہے۔ کیا اسلوب صاحب فن کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے؟ اس بارے میں شبانہ اقبال کا کہنا ہے کہ کسی بھی واقعے، افسانے ، حقیقی داستان یا گزرے وقت کی کوئی روداد لکھتے ہوئے اسلوب ہی طرز تحریر میں ظاہر ہوتا ہے جس کی مدد سے فنکار اپنی ذہنی کاوش پیش کرتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر ادبی ہیئت اسلوب کو اپنے اندر اس طرح لئے ہوئے ہے جس طرح اسلوب زبان کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اس میں وہ تمام عناصر شامل ہیں جن سے فنکار وجود میں آتا ہے۔ سعید اقبال کو اپنے ہمنام، شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری اتنی ہی پسند ہے جتنی کہ برصغیر کے ہر صاحبِ شعور کو پسند ہے۔ اس شاعری میں جہاں خودی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے وہیں اپنے مقصد حیات کو جاننے اور اس مقصد کو مکمل کرنے کا لائحہ عمل بھی بتایا گیا ہے۔’’ انسان‘‘ اس لحاظ ے قابل عمل اشعار پر مشتمل ہے کہ اس کے اشعار کو سمجھا جائے اور تدبر کیا جائے کہ دراصل ایک انسان کس قدر باحمیت ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری حکمت سے بھرپور ہے:
منظر چمنستان کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محروم عمل نرگس، مجبورِ تماشا ہے
رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبرکی محرومِ تمنا ہے
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہرقوت سرگرمِ تفاضا ہے
اس ذرہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستیٔ دانا ہے، بینا ہے توانا ہے
 قومی حمیت کو جگانے والے اشعارملاحظہ ہوں:
آنکھ کو بیدار کردے وعدہ ٔدیدار سے
زندہ کردے دل کو سوزِ جو ہرِ گفتار سے
رہزنِ ہمت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تُو، گلشن میں مثل جُو ہوا
شبانہ اقبال نے بتایا کہ ان کے شوہر سعید اقبال احمدبینکر ہیں اور کئی اداروں میں اہم فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہتے ہیں۔ مالیاتی شعبے میں ان کا نظریہ مستحکم ہے چونکہ دنیا میں تین معاشی نظام ہیں۔ اشتراکیت میں جو لوگ کماتے ہیں اس کی مالک ریاست ہوتی ہے۔ چاہے کوئی ایک ہزار کی نوکری کرے یا ایک سو کی، وہ سب حکومت کا ہو گا۔ ہر ایک فرد کو اس کی ضرورت کے لحاظ سے یکساں سہولتیں فراہم کر دی جائیں گی۔ سرمایہ دارانہ نظام دوسرا اہم معاشی نظام ہے جس میں چند لوگ سرمایہ درانہ نظام کے تحت امیر سے امیرتر ہوتے جاتے ہیں اور باقی عوام غریب سے غریب ہو کر غربت کی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس میں چند لوگوں کے ہاتھ میں ملک بھر کی دولت سمٹ کر آجاتی ہے جبکہ اسلامی معاشی نظام میں ہر فرد کی اپنی صلاحیت اور محنت کی اجرت اس کو مل جاتی ہے۔ غریب کی مدد کاسلسلہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ممکن بنایا جاتا ہے۔ کسی بھی فرد کی کمائی میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا یہی نظام پوری دنیا میں سب سے بہترین نتائج کا حامل ہے۔
شبانہ اقبال اپنے شوہر کیلئے کہتی ہیں کہ عورت گھر سے باہر اپنی صلاحیت کا اظہار کسی طور نہیں کر سکتی جب تک کہ اسے اپنے شوہر کا تعاون حاصل نہ ہو۔ فرحین ، فہد اورثوبیہ نے اپنے والد صاحب کی شخصیت سے بہت سی خوبیاں حاصل کی ہیں۔ اقبال صاحب منکسر المزاج، نرم طبیعت کے مالک ہیں۔ مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔
اپنے والدین کے فرمابردار ہیں۔ وہ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے عوام کی تعلیمی کیفیت میں بہتری کے خواہش مندہیں۔ اقبال احمد اپنی اہلیہ کیلئے بہترین ستائش پیش کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ عورت ایک نسل کیلئے بہترین ہوتی ہے۔گھر میں شبانہ صاحبہ کے مشورے سے ہی ہر کام انجام دیا جاتا ہے۔ چاہے بچوں کی تعلیم کا معاملہ ہو یا چھٹیوں میں سیر وسیاحت کا۔ شبانہ گھر کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں۔ جہاں وہ بہترین ماں ہیں ،وہیں اپنے والدین کی بہترین خوبیوں کی حامل بیٹی بھی ہیں اور یہ خوبیاں والدین سے ہی اکثریت کو ملتی ہیں۔

شیئر: