امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس صدر کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ یوکرین جنگ بند کرنے پر رضامند نہ ہوئے تو اس کے ’انتہائی سنگین نتائج‘ برآمد ہوں گے۔‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ دھمکی الاسکا میں جمعے کو روسی ہم منصب سے ہونے والی ملاقات کے تناظر میں دی گئی ہے جس میں روس یوکرین جنگ کو بند کے حوالے سے مذاکرات ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے روس کے حوالے سے جن سنگین نتائج کا ذکر کیا، ان کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
مزید پڑھیں
-
ٹرمپ پوتن کے درمیان فون کال سے قبل روس کا یوکرین پر ’بڑا حملہ‘Node ID: 889873
-
روسی صدر ولادیمیر پوتن سے جلد ملاقات ہو سکتی ہے: ڈونلڈ ٹرمپNode ID: 893103
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان یوکرینی رہنماؤں سے ورچوئل ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی شامل تھے۔
انہوں نے گروپ کو بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں میں ’دھوکہ دہی‘ سے کام لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (پوتن) الاسکا میں ہونے والے اجلاس سے قبل یوکرین کے تمام محاذوں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور روس یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ پورے یوکرین پر قبضہ کر سکتا ہے۔‘
اس آن لائن ملاقات میں شریک جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے بعدازاں صحافیوں کو بتایا کہ تمام رہنماؤں کی صدر ٹرمپ سے بات چیت ’اچھی اور تعمیری‘ رہی۔

رواں ہفتے امریکی و روسی صدور کی ملاقات انتہائی سخت سکیورٹی میں الاسکا میں ایک فوجی اڈے پر ہو گی جو عوامی احتجاج یا کسی اور سرگرمی سے بھی دور ہو گی۔
دفاعی تجزیہ کار جینسن نے ملاقات کے مقام کو واشنگٹن کے تھنک ٹینک کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہے کہ ’یہ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوجی طاقت دکھانے کا بہترین موقع ہے جبکہ اس کو کسی بھی قسم کی مداخلت سے بھی دور کر دیا ہے، جس سے ان کو امید ہے یہ بات چیت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔‘
ملاقات کے لیے اس مقام کے چناؤ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک جانب وہ اچھے تعلقات استوار کرنے کی خواہش دکھا رہے ہیں وہیں فوجی طاقت کا اشارہ بھی دے رہے ہیں۔‘
خیال رہے روس نے 22 فروری 2022 کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس پر وہ اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے، اس جنگ میں یورپی یونین اور امریکہ یوکرین کا ساتھ دے رہے ہیں اور روس پر پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں تاہم جنگ ابھی تک جاری ہے۔
کچھ ماہ قبل مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے روس پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تھا۔