Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاﺅں گا“

 
نامور ادےب ،شاعر ، کالم نوےس اورڈرامہ نگار احمد ندیم قاسمی کو10جولائی کوہم سے بچھڑے 11برس مکمل ہو گئے
نامور ادےب ،شاعر ، کالم نوےس اورڈرامہ نگار احمد ندیم قاسمی کورواں ماہ کی 10تاریخ کو ہم سے بچھڑے 11 بر س مکمل ہوگئے ۔ احمدندےم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ اور ندےم ان کا تخلص تھا ۔ وہ 20نومبر 1916ءکو پنجاب کے علاقے خوشاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گاﺅں میں حاصل کی جبکہ 1923ءمیں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔وہاں انہیں دینی ، علمی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔انہوں نے 1931ءمیں میٹرک کیا اور بہاولپور کے ایک کالج سے 1935 ءمیں بی اے کیا۔ 1939ءمیں محکمہ آب کاری میں سرکاری ملازمت اختےار کرلی۔اسی سال ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ چوپال شائع ہوا تاہم 1942ءمیں وہ ملازمت سے مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے جہاں انہوں نے دو جریدوں تہذیبِ نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی۔
1943ءمیں ادب لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ریڈیو پشاور میںا سکرپٹ رائٹر کے طور پر ملازم ہو گئے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ13اور14اگست 1947 ءکی درمیانی شب انہی کا لکھا ہوا اولین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعدبھی ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے، پھر ہاجرہ مسرور سے مل کر نقوش کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے جبکہ اپنی وفات تک وہ مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے رہے۔
پاکستان ٹیلی وژن کے لئے انہوں نے ”قاسمی کہانی“اور” گھر سے گھر تک“ سمیت متعدد معروف ڈرامے تحریر کئے۔وہ شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور صحافی تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے 50 سے زائد کتابیں تحریر کیں۔ ان کی شاعری کے 12 مجموعے منظرِ عام پر آئے۔
احمد ندیم قاسمی میں کئی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ انہوں نے فرد کی ذات کی کیفیات کے ساتھ معاشرتی ناہمواریوں اور مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا۔قاسمی صاحب نے نہ صرف عوام کے مسائل پر لکھا بلکہ ان کے حل کیلئے عملی جدوجہد بھی کی۔ اپنے عوام دوست نظریات کی بنا پر انہیں جیل بھی کاٹنا پڑی۔1962ءمیں ان کی لکھی ہوئی ایک نظم بہت مشہور ہوئی ۔اس نظم کے مصرعے جن میں وہ فنکار سے مخاطب ہوتے ہیں،کچھ یوں ہیں:
”ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں،لیکن
 کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا“
احمد ندیم قاسمی کو اردو ادب مےں بہترےن خدمات کے اعتراف مےں 1968 ءمیں تمغہ¿ حسن ِ کارکردگی اور1980 ءمیں ستارہ¿ امتیاز سے نوازا گیا۔اردو ادب کی یہ ہمہ جہت شخصیت10 جولائی 2006ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اپنی تخلیقات کی صورت میں وہ آج بھی لوگوں کی یادوں میں زندہ ہیں۔ان کا اےک مشہور شعر آج بھی زباں زدِ عام ہے کہ:
”کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاﺅں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاﺅں گا“
 
 
 
 
 

شیئر: